Powered by Blogger.

Saturday, 2 February 2013

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی


عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی 


یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نا ناری ہے حکیم الامت شعرِ مشرق علامہ اقبال نے اس شعر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ عمل ہی ایک ایسی واحد شے ہے جس سے انسان اپنی زندگی کو کامیاب ، خوشگوار اور پرآشوب بناسکتا ہے۔ 

اللہ تعالی نے انسان کو زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے۔ اسی لئے اس ذاتِ پاک نے انسان کو بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے۔ عقل دی تاکہ اپنے لئے صحیح راستہ کا انتخاب کرے اور سعی و کوشش کی خوبی سے نوازا تاکہ اس کے منتخب کردہ راستے کے حصول کے لئے جدوجہدِ عمل سے کام لے، ہمت و استقلال، بردباری اور عرفان دیا تاکہ مقاصد کے حصول میں پیش آنے والی پریشانیوں کا مقابلہ کرسکے۔ اللہ تبارک و تعالی نے انسان کی حدود متعین کی ہوئی ہیں۔ جن کے اندر رہ کر انسان بہت کچھ کرسکتا ہے اور جہاں تک خدا چاہتا ہے اس سے آگے کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ مفلسی اور امیری بھی اللہ نے انسانوں کے اختیار میں کی ہے جس نے عمل کیا کوشش کی ترقی کی راہ اختیار کی اسی ترقی ملی ہے۔ جس نے عمل کیا، کوشش کی ترقی کی راہ اختیار کی 
اسے ترقی ملی ہے۔ 

 اللہ تعالی خود فرماتا ہے

انسان کے لئے کچھ نہیں سوائے اس کے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے 

کامیاب لوگوں کی ترقی کا زینہ بے اندازہ جدوجہد، شب و روز کی محنت اور عملِ پیہم سے مل کر بنا ہے۔ کم ہمتی اور بے عملی انسان کی ناکامی کا سبب بنتی ہے۔ وہ تدبیر کو چھوڑ کر تقدیر کے سرہانے بیٹھ کر روتے ہیں اور نتیجاً آنسو اور آہیں ان کا مقدر بن جاتے ہیں۔ قسمت بنی بنائی نہیں ہوتی بلکہ قسمت انسان خود بناتا ہے اگر اس کے مقاصد نیک ہوں تو باتدبیر عمل، صحیح سمت، محنت، لگن اور دیانت داری کے ذریعے وہ اپنی منزل ِ مقصود تک ضرور پہنچ جائے گا اور اس میں خدا اس کا حامی و ناصر ہوگا۔ اگر انسان کوتاہیوں اور غلط منصوبہ بندی سے کام لے گا تو اس کے لئے اپنے مقاصد کا حصول بہت زیادہ مشکل ہوجائے گا۔ 

صاحبِ عقل و فہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کامیابی کا راز عمل میں پنہاں ہے۔ کم ہمت لوگ جو کاہلی، تلون مزاجی اور بزدلی کی وجہ سے ناکام رہ جاتے ہیں۔ تقدیر کو مورودِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ لیکن یہ سراسر غلط ہے اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ انسان کوشش ترک کردے اور تقدیر پر سب کچھ چھوڑ دے۔ صاحبِ علم و فراست یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر آنے والے لمحے سے وابستہ داستانِ ”لوح ِ محفوظ“ میں قلمبند ہے جو کچھ ہم کریں گے وہ اس مےں لکھا ہے کم عقل حضرات اس سے یہ اندازہ بھی لگا لیتے ہیں کہ خواہ ہم کچھ بھی کرلیں وہی کچھ ہوگا جو تقدیر میں لکھا ہے۔ یہ سوچنا سراسر غلط ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو کسی کام کے کرنے کے لئے پابند کردیا گیا ہے۔ 

ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہر بڑا آدمی اپنے عزم و استقلال اور ہمت و جوانمردی سے تدبیرو عمل کے ذریعے اپنے لئے راہ ہموار کرتا ہے۔ وہ عزت، شہرت، شان و شوکت غرض سب کچھ جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم سے حاصل کرتا ہے۔ اسے اپنی زندگی میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ ہمت و استقلال پر قائم رہتا ہے اور اپنے ارادوں کو چٹان کی طرح مضبوط رکھتا ہے۔ ہر کامیاب انسان اپنے مقصد سے غافل نہیں ہوتا۔ فضول گفتار میں وقت جیسی اہم چےز کو برباد نہیں کرتا۔ تمام اہلِ شہرت و عزت کی کامیابی کا راز عمل ہے۔ ان کی زدنگی سے ہمیں دعوتِ عمل ملتی ہے۔ 

پس انسان کی زندگی اس کے اپنے اعمال و کردار سے بنتی ہے 

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا

تعلیمِ (مضمون)


 تعلیمِ 

دولتِ علم سے بہرہ مند ہونا ہر مردوزن کے لئے لازمی امر ہے۔ ترقی صرف اس قوم کی میراث ہے جس کے افراد زیورِ علم سے آراستہ و پیراستہ ہوں۔ علم کے بغیر انسان خدا کو بھی پہنچاننے سے قاصر ہے۔ کسی بھی عمل کے لئے علم ضروری ہے کیونکہ جب علم نہ ہوگا تو اس پر عمل کیسے ہوسکے گا۔ 

اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی حصول علم لازمی ہے۔ اسلام نے مردو عورت دونوں کے حصول، علم کی تاکید کی ہے۔ خواہ اس کے لئے دوردراز کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ علم ایک ایسا بہتا دریا ہے جس سے جو جتنا چاہے سیراب ہوسکتا ہے۔ لیکن شرط محنت اور لگن ہے۔ زندگی کی اقدار میں نکھار اور وقار علم سے ہی آسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت و مرد دونوں کی اہمیت یکساں ہے۔ ترقی کی راہوں پر آگے بڑھنے کے لئے عورتوں کے لئے بھی علم اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مردوں کے لئے ہے۔ گویا عورت اور مرد ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں جن میں سے ایک کی بھی علم سے لاتعلقی کائنات کے نظام کو درہم برہم کرسکتی ہے۔ 

خواتین کے فرائض مےں سے ایک اہم فریضہ بچوں کی پرورش، ان کی نگہداشت اور صحیح تربیت ہوتی ہے۔ بچے کی ابتدائی درسگاہ دراصل ماں کی گود ہوتی ہے۔ اگر ماں تعلیم یافتہ اور سلیقہ شعار ہو تو اولاد بھی صاحبِ علم اور مہذب ہوگی۔ بچے اپنی ماں سے طور طریقے اور آداب و اطوار حاصل کرتے ہیں۔ ایک ماں نے اپنی اولاد کے خیالات اور کردار کو سنوارنے کی ذمہ دار ہوتی ہے جب ماں کی بنیادیں مستحکم ہونگی تو بچے بھی معاشرے کے اہم فرد کی حیثیت سے ابھر سکتے ہیں۔ 
اسی لئے کہتے ہیں کہ 

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

ایک تعلیم یافتہ اور باشعور ماں ہی قوم کی اس امانت میں اخلاقی ہمدردی اور ایثار پیدا کرکے جذبہ جب الوطنی بیدار کرتی ہے۔ باپ بھی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن فکرِ معاش کی وجہ سے وہ بچوں کو اپنا پورا وقت نہیں دے سکتا۔ اسی لئے بچوں کی پرورش کی اصل ذمہ داری ماں پر عائد ہوتی ہے۔ ماں جو ابتدائی تہذیب سکھاتی ہے۔ یہی بڑے ہوکر اسکی فطرت مین راسخ ہوجاتی ہے۔ 

اگر صلاحیتوں اور ذہانت کا مقابلہ کیا جائے تو عورتیں مردوں سے کسی بھی طور پر کم نہیں ہوتیں۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اب تک کئی خواتین اقتدارِ سلطنت حاصل کرچکی ہیں۔ لیکن جنہوں نے یہ کارنامے انجام دئیے وہ سب تعلیم کے زیور سے آراستہ تھیں، صاحب عقل حضرات کی سمجھ میں یہ بات آنی جاہئے کہ عورتوں کی تعلیم کو صرف ناظرہ و قرآن مجید تک محدود رکھنا اور دیگر علوم سے دور رکھنا کوئی عقلمندی نہیں۔ بعض حضرات کا خیال یہ ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ عورتیں فیشن پرست ہوجاتی ہےں، فضول خرچی ان کی عادت ہوجاتی ہے۔ اور اپنے فرائض کی انجام دہی صحیح طریقے سے نہیں کرپاتیں۔ لیکن یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ یہ تمام عادات کسی کو گھریلو ماحول سے ملتی ہیں۔ ترقی پسند لوگوں کو اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ اگر ہم انہیں پاکیزہ اور برائیوں سے پاک ماحول مےں تعلیم دیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ تعلیم نسواں معاشرہ میں کسی بگاڑ کا باعث بنے۔ اس طرح سے حصلہ افزاءنتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ 

پس ہمیں چاہیے کہ قدرت نے عورت کو جو فطری صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ ان کو بروئے کار لایا جائے اسی طرح ان میں وہ مطلوبہ صفات پیدا ہوسکتی ہیں جو خوش آئندہ مستقبل کی ضمانت ہیں۔

ہمت کرے انسان تو کیا ہونہیں سکت


ہمت کرے انسان تو کیا ہونہیں سکت

ہمت، تحمل اور بردباری کا مطلب کسی کام کو پختگ ہے· ارادہ سے انجام دینا اور اس کام کو پایہ اور تکمیل تک پہنچانے میں جو دشواریاں اور مشکلات آئیں۔ انہیں برداشت کرکے ثابت قدم رہنا ہے۔ ہمت ہر مشکل کام کو آسان بنادیتی ہے۔ہمت کے استعمال سے گریز کرنے والا انسان سستی، کاہلی اور نکمے پن کو دعوت دیتا ہے۔ اللہ نے انسان کو جتنی بھی صلاحیتیں عطا کیں ہیں۔ اس کا صحیح استعمال انسان کو انسانیت کے عظیم درجے پر پہنچا دیتا ہے

مشکلے سنیت کہ آسان نشود
مرد باید کہ ہر اساں نشود 
دنیاکی ترقی، ایجادات، تحقیق ق تجسس، سائنس کے کارنامے، انجن، ریل گاڑیاں، مواصلاتی نظام، ٹیلیفون اور ایٹمی توانائی، انسان کی چاند تک پہنچ اور ہوا، آگ اور پانی پر حکمرانی سب ہمت کے کرشمے ہیں۔ اگر انسان ہمت کرے تو مٹی سے سونا پیدا کرسکتا ہے۔ تاریکیوں کا سفر ترک کرکے شہرت و دولت حاصل کرسکتا ہے۔ ہمت اور صحیح طریقے پر محنت کے بغیر کوئی شخص کامیابی حاصل نہیں کرسکتا
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا، تب نگین ہوا 
ہمت، محنت، استقلال، اور بردباری کے ذریعے ہی بڑے بڑے سیاستدان، ڈاکٹر، ماہرین فن، موجد و مہ اور قلمکار اس مقامِ خاص تک پہنچے جہاں آج ہم انہیں کھڑا ہوا پاتے ہیں۔ تمام افراد جو کامیابی کے اس زینے تک پہنچے وہ مشکلات و مصائب کا مقابلہ ثابت قدمی سے کرتے ہوئے اپنے نصب العین کی طرف گامزن رہے اور بالآخر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔ انسان کے کے لئے کوئی کام مشکل و ناممکن نہیں ہوتاسوائے ان کاموں کے جو اللہ تعالی کی ذات کے مخصوص ہیں۔ مثلاً تخلیقِ کائنات صرف خداوندِ کریم ہی کرسکتا ہے۔ کوئی دوسرا اس کا اہل نہیں ہوسکتا۔ آج کا انسان چاند تک پہنچ چکا ہے۔ زمین و آسمان، کوہسار و یگزار اور ہوا و پانی غرض ہر شے کو تسخیر کرچکا ہے۔ اور یہ سب کچھ صرف ہمت، محنت، لگن، استقلال اور عزمِ صمیم کی بدولت ہے۔
ہمت کے آگے نہ سمندر رکاوٹ بن سکتا ہے اور نہ پہاڑ ہمت میں لغزش پیدا کرسکتے ہیں اور نہ ہی دشت و صحرا آج تک انسان کا راستہ روک سکے ہیں۔ طارق بن زیاد نے اپنی ہمت و شجاعت کا عملی مظاہرہ کیا، جنگِ بدر میں مجاہدینِ اسلام نے اس کا عملی ثبوت دیا ، اندلس کی سرزمین مسلمانوں کی ہمت و عظمت کی گواہ ہے اور افغانستان سے روسیوں کا انخلاءعظم و ہمت کی منہ بولتی تصویر ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ مارے عظیم رہنما قائد اعظم نے ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ ایک طرف انگریزوں کی مکاری اور چابازی تھی تو دوسری طرف ہندو کا تعصب تھا۔ ستم بالاستم اپنوں میں بھی بیگانے موجود تھے۔ قائدِ اعظم اور دیگر رہنما نے بشمول برصغیر کے تمام مسلمانوں نے ہمت اور عزم سے کام لیا اور ثابت قدم رہے۔ شجاعت و بردباری سے ایک مضبوط چٹان کی طرح دشمنوں کے سامنے ڈٹے رہے اور بالآخر خدا نے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اسی طرح دنیا کی دیگر بڑی بڑی ہستیوں کی سوانح حیات کا مطالعہ ہمیں ان کی کامیابی میں پنہاں راز تک پہنچا دے گا جو کہ ہمت و استقلال میں پوشیدہ ہے۔
قائدِ اعظم کا قول ہے کہ:

کسی کام کو کرنے سے پہلے سوبار سوچو کہ یہ کام ٹھیک ہے مجھے ایسا کرنا چاہئے۔ جب تمہارا ذہن فیصلہ دے دے کہ ہاں ایسا کرنا درست ہے۔ اس میں کوئی برائی نہیں تو اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مضمم ارادہ کرلو اور دم اس وقت لو جب اسے پورا کرلو۔ اس بات سے نہ گھبرا کے راستے میں مشکلات آئیں گی، رکاوٹیں ہونگی، دشمنوں کی مخالفت ہوگی۔ اپنی منزل کی طرف نگاہ کرکے آگے بڑھتے چلے جاو۔ انشاءاللہ کامیابی ضرور تمہارے قدم چومے گی۔ بقول شاعر
وہ کون سا عقیدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا

سمندر کے کنارے ایک شام


   سمندر کے کنارے ایک شام         

گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوچکی تھیں۔ میں نے پہلے ہی ہفتہ میں اسکول کا دیا ہوا گھر کا کام ختم کرلیا تھا۔ اس لئے اس طرف سے بے فکر اور مطمئن تھا۔ وقت کی کمی نہ تھی چنانچہ مجھے تفریح کی سوجھی اور میں نے چند دوستوں کے ساتھ ہاکس بے جانے کا پروگرام بنالیا۔ 

پکنک پر جانے سے ایک دن پہلے ہم بازار گئے اور وہاں سے کھانے پینے کی اشیاءخریدیں اور منی بس بھی کرائے پر لی اور آپس میں دیگر ذمہ داریاں تقسیم کرلیں۔ کسی نے کباب کا ذمہ لیا تو کسی نے کولڈ ڈرنگ کاذمہ اور کسی نے پراٹھے لے آنے کا۔ 

اب جب روانہ ہوئے تو صبح کے سات بجے کا وقت تھا۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے میں ہم لوگ ہاکس بے جاپہنچے۔ سب سے پہلے ہم نے ہٹ کرائے پر لیااور سامان وغیرہ رکھ کر تیراکی کے شوق میں پانی میں اتر گئے۔ گرمی عروج پر تھی اور ہم پسینے میں شرابور ہوگئے تھے۔ اس لئے تیرنے میںبڑا مزہ آیا۔ ہم اپنے گیند بھی لے گئے تھے اس لئے واٹر پولو کھیلنے میں بڑا مزا آیا۔۔ 

ایک بجے ہم سب ہٹ میں واپس آگئے۔ ہم تیر تیر کر خوب تھک چکے تھے۔ اس لئے بھوک کے مارے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ ہم نے سیر ہوکر کھایا اور کچھ دیر ریت پر لیٹ گئے اور گپ بازی کرنے لگے۔ چاربجے ہم نے چائے پی۔ پھر ہم سب کھیلنے اور سیپیاں جمع کرنے پانی کے قریب گئے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی، عزم اور لطف اندوز ہوائیں چل رہی تھےں۔ ہم میں سے چند نے پھر تیرنا شروع کردیا۔ غرض ان مشاغل میں دن ڈھل گیا اور موجیں زور زور سے اٹھنے لگیں۔ ایسا محسوس ہوا کہ پانی کی اونچی اونچی دیواریں یکے بعد ساحل کی طرف بڑھ رہی ہیں اور جیسے تماشائیوں کے ہجوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ 

دن بھر کا تھکا ماندا آفتاب افقِ مغرب کی اوٹ میں سرنگوں تھا۔ ہلکی ہلکی خنک ہوا طبیعت میں کسل مندی پیدا کررہی تھی اور آسمان کے کنارے شفق رنگین بڑے دیدہ زیب نظر آرہے تھے۔ دور تک سرخ دھاریں اس طرح پھیل گئی تھیں جیسے عروسِ شام رنگین آنچل سے ڈھلک گئی ہو۔ ہم کافی دیر سے غروبِ آفتاب کے اسی روح پرور نظاری سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ آخر شام کی سیاہی بڑھی اور ہم سارے دوست ہٹ میں واپس آگئے اور دسترخوان کے گرد بیٹھ گئے اور کھانے کی اشیاءپر ٹوٹ پڑے۔ 

ویگن پر سوارہوکر واپس گھر کی طرف روانہ ہوئے تو ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔ اپنے اپنے گھروں تک پہنچنے میں ہم بہت تھک چکے تھے۔ مگر اس میں ایک کیف و سرور کا احساس شامل تھا۔ ساحلِ سمندر پر گزری ہوئی یہ شام ہمارے لئے ایسے جلووں، ایسی دلآویزی و دلکشی اور سامانِ فرحت رکھتی ہے کہ اس کی یاد ہمیں کبھی نہیں بھولتی
۔


عجائب گھر


عجائب گھر

عجائب گھر کا نام اس کے لئے بہت موزوں ہے۔ اس کا نام ہی اس کی طرز کی عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ نہ جانے یہ مقام کیسی کیسی عجیب و غریب چیزوں کا گھر گو۔ عجائب گھر کا نام ہمارے لئے بھی باعثِ تجسس تھا۔ اسی لئے ہم نے بھی ایک دن لاہور کا عجائب گھر دیکھنے کی ٹھانی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں لاہور شہر میں سکونت اختیار کئے ہوئے تھا۔ ہم تمام دوستوں نے صلاح و مشورے سے یہ تجویز کیا کہ جمعہ کے دن عجائب گھر کی سیر کو چلیں گے۔ باقی دوستوں کو تو اپنے والدین سے باآسانی اجازت مل گئی لیکن ہمیں ذرا مشکل پیش آئی بہرحال یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا۔
ہمارے ایک استاد بھی ہمارے ساتھ عجائب گھر جانے کو تیار ہوگئے تھے۔ جمعہ کے دن ہم تمام دوست اپنے استاد محترم جمال صاحب کے ساتھ عجائب گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ تقریباً گیارہ بجے ہم لوگ عجائب گھرکے دروازے پر تھے۔ عجائب گھر ایک بہت ہی کھلی اور خوبصورت سڑک کے کنارے واقع ہے اس کی عمارت بڑی شاندار ہے اور اردگرد باغیچہ ہے۔ اس کے سامنے کی جانب پنجاب یونیورسٹی ہے۔ ہم نے ٹکٹیں خریدں اور عجائب گھر میں داخل ہوگئے۔
عجائب گھر کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصہ ایسا ہے جہاں پرانے زمانے کے مٹی کے بنے ہوئے برتن، کھلونے، مورتیاں اور ایسی چیزیں اور ہتھیار موجود ہیں جو اس زمانے کی تہذیب و تمدن کا پتہ دیتی ہیں۔ یہ تمام اشیاءدھات کے زمانے سے بھی قبل کی ہیں۔ دوسرے حصے میں لکڑی کی اشیاءہیں جن میں مہاتما بدھ کا مجسمہ قابلِ ذکر ہے۔ وہاں کی ہرشے اپنے دور کی عکاسی کرتی ہے۔ تمام اشیاءپر ان کے مختصر کوائف درج ہوتے ہیں۔ اور احتیاط کے پیشِ نظر ان اشیاع کو چھونے کی ممانعت ہوتی ہے کہ ہاتھ لگانے سے ان نوادرات کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے اور دوسرے یہ کہ ان پر لگے ہوئے کیمکلز سے ہمیں بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ 

مسلمانوں کے دورِ حکومت نے بھی نوادرات کا بیش بہا خزانہ ہمارے لئے چھوڑا ہے۔ جابجا سامانِ حرب، ذرہ بکتر اور لباس بھی رکھے وہئے ہیں۔ یہ لباس اس قدر بھاری بھرکم نظرم آرہے تھے کہ انہیں پہن کر چلنا تو درکنار انہیں اٹھا کر چلنا بھی ہمارے لئے دشوار کام ہوتا۔ اس بات سے ہم نے پرانے لوگوں کی طاقت کا اندازہ لگایا کہ واقعی ان کی طاقت و شجاعت میں کوئی شک نہیں۔
ایک اورحصہ میں زمانہ قدیم کی مصنوعات تھیں جن میں اکثر عام پتھر اور سنگِ مرمر سے بنی ہوئی تھیں۔ اور ان اشیاءکو دیکھ کر اس زمانے کے کاریگروں کی فنکارانہ صلاحیتوں اور محنت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اکثر مقامات پر کپڑوں کے نمونے نظر آتے ہیںجن پر نقاشی کی گئی ہے۔ عجائب گھر میں مختلف زمانے کے سکے بھی پڑے ہوئے ہیں جن پر لکھی ہوئی عبارت پڑھنا ہمارے بس سے باہر ہے۔ اسی طرح پتھروں پر بھی عبارتیں کھدی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید کے قلمی نسخے بھی یہاں پر موجود ہیں جن کے رسم الخط نہایت عمدہ ہیں جو اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے مختلف ہیں۔
سیاحوں اور تاریخ دانوں کے لئے عجائب گھر بہت زیادہ کشش رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ ان کی معلومات میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ اسی لئے سیاحت کے فروغ کے لئے عجائب گھر کا صحیح انتظام لازمی ہے۔

عزائم کو سینوں میں بیدار کردے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کردے 
آج جو مملکتِ خداداد پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ آج سے تقریباً ۵۴ سال پہلے یہاں کی یہ حالت تھی کہ یہاں پر مسلمان کے خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی۔ یہی وہ ملک ہے جہاں کی صدیوں پرانی شاندار تہذیب و ثقافت کو انگریزوں نے اپنے دستِ ستم سے بری طرح نقصان پہنچایا۔
مندرجہ بالا علامہ اقبال کا شعر جو کہ مسلم کی نگاہ کو تلوار کی حیثت سے دلکش انداز میں پیش کررہا ہے۔ اسی شعر کے موضوع پر ان حقیقی کاوشوں کا ذکر کیا ہے۔ جس کے باعث ہم نے مملکتِ خداداد پاکستان حاصل کیا۔ ویسے تو ان حالات کو بیان کرنے کے لئے کئی دفاتر درکار ہیں۔ مگر یہ بات بھی ایک حقیقت کہ مسلمانوں نے برصغیر پاک و ہند پر ایک سو سال تک حکومت کی تھی اور ان کے بعض حکمران کی غفلت کی وجہ سے برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں کی گرفت کمزور پڑتی گئی اور اغیار کا تسلط قائم ہوگیا اور پورے ہندوستان پر وہ انگریز تاجر جو کہ وہاں صرف تجارت کی غرض سے آئے تھے حاکم بن کر بیٹھ گئے اور وہاں کے باسیوں پر طرح طرح کے ظلم و ستم روا رکھتے لگے۔
ایسے کڑے وقت میں ہندووں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا اور پوری مسلم قوم ایک ایسے شکنجے میں جکڑ گئی جو کہیں سے کھلا ہوا نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ مسلمانوں کی غفلت کا نتیجہ تھا۔ کیونکہ قدرت کسی قوم کی اجتماعی برائیوں اور گناہوں کو کبھی معاف نہیں کرتی اور بلاوجہ کسی قوم کو دیئے گئے اعزازات نہیں چینتی۔ ایسے مشکلات سے گھرے ہوئے دور میں قائدِ اعظم وہ واحد ہستی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو گمراہی اور غلامی کے کنویں سے نکال کر روشنی کی راہ دکھائی اور ان کا پورا پورا ساتھ مسلمانوں اور وقت کے عظیم لیڈر اور قومی شاعر علامہ اقبال نے دیا۔ 
علامہ اقبال نے اپنی پوری شاعری مسلمانوں کی اصلاح کے لئے وقف کردی۔ ان کی شاعری مسلمانوں کے لئے اندھیرے میں چراغ کا کام دے رہی تھی جس کی روشنی میں وہ اپنے کھوئے ہوئے راستوں کو دیکھر کر منزل کی جانب قدم بقدم بڑھ رہے تھے۔
علامہ اقبال کے خیال میں مسلمانوں کے اپنے ایمان کی وجہ سے قوتِ ارادی اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ مسلمان کی نگاہ سے وہ مشکل کام کیا جاسکتا ہے جو کہ تلوار اور ہتھیاروں سے کیا جاتا ہے۔ مسلم کے معنی ہیں مان لینے والا یا ”سر تسلیم خم کرنے والا“ اور پھر مسلم سے مراد یہ بھی ہے کہ وہ اللہ رب العزت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احکامات کو مانے اور اور ان کے مطابق زندگی بسر کرے۔
علامہ اقبال مسلمانوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اس کے علاوہ مسلمانوں کی خودی کی تعریف کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے کہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے 
شاعری میں اقبال نے مسلمانوں کی مدد کے لئے خداوند تعالی سے مدد مانگی اور مسلمانوں کے لئے جو اپنی راہ کھو کر غلط قسم کی تفریحات میں مشغول تھے۔ سیدھے راستے پر چلانے کی دعا کرتے ہوئے بے شمار اشعار کہے۔ ان کی اور قائدِ اعظم کی اور برصغیر کے دیگر مسلمانوںکی کوششوں سے مملکت خدادادِ پاکستان، ۴۱ اگست ۷۴۹۱ءکو وجود میںآیا۔ پاکستان جیسی نعمت ہمیں اتحادو اتفاق جیسی صفات عمل کرکے اپنی زندگی حق کے ساتھ اور باطل کے خلاف بسر کریں اور اپنے بہادر جرنیلوں خالد بن ولید، عبیدہ بن جراح ، محمد بن قاسم، سلطان صلاح الدین ایوبی ،محمود غزنوی، طارق بن زیاد، سرسید احمد خان، علامہ اقبال، اور قائدِ اعظم غرض انہی کی طرح اپنی زندگی کو اسلام کے لئے وقف کردیں۔

صحت و صفائی سے متعلق اخبار کے مدیر کے نام درخواست



                           صحت و صفائی سے متعلق اخبار کے مدیر کے نام درخواست

کمرہ امتحان   
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
مدیر محترم
روزنامہ جنگ کراچی
اسلام وعلیکم!

میں آپ کا روزنامہ باقاعدگی کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے اپنے اخبارکا ایک صفحہ عوامی شکوے ، شکایات اور مسائل کی اشاعت کے لئے وقف کردیا ہے تاکہ لوگوں کے مسائل موثر انداز میں متعلقہ حکام تک پہنچ سکیں۔

لہذا میں آپ کے اخبار کی وساطت سے متعلقہ حکام کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ عرصہ دراز سے ہمارے علاقے میں صفائی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کر تقریباً ختم ہوگئیں ہیں۔ جگہ جگہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے ہیں۔ گٹر آئے دن بند رہتے ہیں۔ گندا پانی جگہ جگہ کھڑا ہے۔ بارش کے زمانے میں تو گندگی اور بدبو کی انتہا ہوجاتی ہے۔ گندگی اور گندے پانی کی وجہ سے مکھیوں، مچھروں اور زہریلے کیڑوں کی بھرمار ہے۔ علاقے کے لوگ بہت پریشان ہیں۔ خطرناک اور مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ کیونکہ صفائی اور پانی کے نکاس کی صورتِ حال انتہائی خراب ہے۔ ہم بار بار متعلقہ افسران کو درخواستیں دے چکے ہیں لیکن ابھی تک کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

امید کرتا ہوں کہ آپ میری یہ عرضداشت حکامِ بالا تک پہنچانے کا ذریعہ بنیں گے اور متعلقہ حکام معاملے کی نزاکت کو محسوس کریں گے اور احساسِ ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے اس مسئلے کے جلد حل کے لئے موثر اقدامات کریں گے۔

فقط
آپکی عنایتوں کا طالب
ا - ب -ج

پانی کی قلت سے متعلق کونسلر کے نام درخواست

پانی کی قلت سے متعلق کونسلر کے نام درخواس 

کمرہ امتحان 
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
بلگرامی جناب کونسلر صاحب
کراچی ۸۳ زون
اسلام وعلیکم!

نہایت ادب سے آپ کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ہمارے علاقے پانی کی شدید قلت ہے۔ گرمی اپنے عروج پر ہے اور ہمارے علاقے میں پانی کا یہ حال ہے کہ کئی دن تک پانی بالکل نہیں آتا اور اگر بھولے سے آبھی جائے تو اتنی قلیل مقدار میں کہ استعمال کے لئے ناکافی ہوتا ہے۔ جسکی وجہ سے ہمیں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گرمی روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے اور پانی کی قلت کا یہ حال ہے کہ کئی کئی دن بغیر نہائے گزر جاتے ہیں۔ تمام محلہ والوں کی جان عذاب میں پڑی ہوئی ہے۔

آپ کی خدمت میں گذارش ہے کہ متعلقہ حکام پر زور دیں تاکہ وہ ہمیں اس مشکل سے نجات دلائیں اور پانی کا انتظام بہتر کریں۔

شکریہ
آپکی توجہ کا طالب
ا - ب -ج