Powered by Blogger.

Saturday, 2 February 2013

عجائب گھر


عجائب گھر

عجائب گھر کا نام اس کے لئے بہت موزوں ہے۔ اس کا نام ہی اس کی طرز کی عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ نہ جانے یہ مقام کیسی کیسی عجیب و غریب چیزوں کا گھر گو۔ عجائب گھر کا نام ہمارے لئے بھی باعثِ تجسس تھا۔ اسی لئے ہم نے بھی ایک دن لاہور کا عجائب گھر دیکھنے کی ٹھانی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں لاہور شہر میں سکونت اختیار کئے ہوئے تھا۔ ہم تمام دوستوں نے صلاح و مشورے سے یہ تجویز کیا کہ جمعہ کے دن عجائب گھر کی سیر کو چلیں گے۔ باقی دوستوں کو تو اپنے والدین سے باآسانی اجازت مل گئی لیکن ہمیں ذرا مشکل پیش آئی بہرحال یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا۔
ہمارے ایک استاد بھی ہمارے ساتھ عجائب گھر جانے کو تیار ہوگئے تھے۔ جمعہ کے دن ہم تمام دوست اپنے استاد محترم جمال صاحب کے ساتھ عجائب گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ تقریباً گیارہ بجے ہم لوگ عجائب گھرکے دروازے پر تھے۔ عجائب گھر ایک بہت ہی کھلی اور خوبصورت سڑک کے کنارے واقع ہے اس کی عمارت بڑی شاندار ہے اور اردگرد باغیچہ ہے۔ اس کے سامنے کی جانب پنجاب یونیورسٹی ہے۔ ہم نے ٹکٹیں خریدں اور عجائب گھر میں داخل ہوگئے۔
عجائب گھر کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصہ ایسا ہے جہاں پرانے زمانے کے مٹی کے بنے ہوئے برتن، کھلونے، مورتیاں اور ایسی چیزیں اور ہتھیار موجود ہیں جو اس زمانے کی تہذیب و تمدن کا پتہ دیتی ہیں۔ یہ تمام اشیاءدھات کے زمانے سے بھی قبل کی ہیں۔ دوسرے حصے میں لکڑی کی اشیاءہیں جن میں مہاتما بدھ کا مجسمہ قابلِ ذکر ہے۔ وہاں کی ہرشے اپنے دور کی عکاسی کرتی ہے۔ تمام اشیاءپر ان کے مختصر کوائف درج ہوتے ہیں۔ اور احتیاط کے پیشِ نظر ان اشیاع کو چھونے کی ممانعت ہوتی ہے کہ ہاتھ لگانے سے ان نوادرات کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے اور دوسرے یہ کہ ان پر لگے ہوئے کیمکلز سے ہمیں بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ 

مسلمانوں کے دورِ حکومت نے بھی نوادرات کا بیش بہا خزانہ ہمارے لئے چھوڑا ہے۔ جابجا سامانِ حرب، ذرہ بکتر اور لباس بھی رکھے وہئے ہیں۔ یہ لباس اس قدر بھاری بھرکم نظرم آرہے تھے کہ انہیں پہن کر چلنا تو درکنار انہیں اٹھا کر چلنا بھی ہمارے لئے دشوار کام ہوتا۔ اس بات سے ہم نے پرانے لوگوں کی طاقت کا اندازہ لگایا کہ واقعی ان کی طاقت و شجاعت میں کوئی شک نہیں۔
ایک اورحصہ میں زمانہ قدیم کی مصنوعات تھیں جن میں اکثر عام پتھر اور سنگِ مرمر سے بنی ہوئی تھیں۔ اور ان اشیاءکو دیکھ کر اس زمانے کے کاریگروں کی فنکارانہ صلاحیتوں اور محنت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اکثر مقامات پر کپڑوں کے نمونے نظر آتے ہیںجن پر نقاشی کی گئی ہے۔ عجائب گھر میں مختلف زمانے کے سکے بھی پڑے ہوئے ہیں جن پر لکھی ہوئی عبارت پڑھنا ہمارے بس سے باہر ہے۔ اسی طرح پتھروں پر بھی عبارتیں کھدی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید کے قلمی نسخے بھی یہاں پر موجود ہیں جن کے رسم الخط نہایت عمدہ ہیں جو اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے مختلف ہیں۔
سیاحوں اور تاریخ دانوں کے لئے عجائب گھر بہت زیادہ کشش رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ ان کی معلومات میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ اسی لئے سیاحت کے فروغ کے لئے عجائب گھر کا صحیح انتظام لازمی ہے۔

عزائم کو سینوں میں بیدار کردے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کردے 
آج جو مملکتِ خداداد پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ آج سے تقریباً ۵۴ سال پہلے یہاں کی یہ حالت تھی کہ یہاں پر مسلمان کے خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی۔ یہی وہ ملک ہے جہاں کی صدیوں پرانی شاندار تہذیب و ثقافت کو انگریزوں نے اپنے دستِ ستم سے بری طرح نقصان پہنچایا۔
مندرجہ بالا علامہ اقبال کا شعر جو کہ مسلم کی نگاہ کو تلوار کی حیثت سے دلکش انداز میں پیش کررہا ہے۔ اسی شعر کے موضوع پر ان حقیقی کاوشوں کا ذکر کیا ہے۔ جس کے باعث ہم نے مملکتِ خداداد پاکستان حاصل کیا۔ ویسے تو ان حالات کو بیان کرنے کے لئے کئی دفاتر درکار ہیں۔ مگر یہ بات بھی ایک حقیقت کہ مسلمانوں نے برصغیر پاک و ہند پر ایک سو سال تک حکومت کی تھی اور ان کے بعض حکمران کی غفلت کی وجہ سے برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں کی گرفت کمزور پڑتی گئی اور اغیار کا تسلط قائم ہوگیا اور پورے ہندوستان پر وہ انگریز تاجر جو کہ وہاں صرف تجارت کی غرض سے آئے تھے حاکم بن کر بیٹھ گئے اور وہاں کے باسیوں پر طرح طرح کے ظلم و ستم روا رکھتے لگے۔
ایسے کڑے وقت میں ہندووں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا اور پوری مسلم قوم ایک ایسے شکنجے میں جکڑ گئی جو کہیں سے کھلا ہوا نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ مسلمانوں کی غفلت کا نتیجہ تھا۔ کیونکہ قدرت کسی قوم کی اجتماعی برائیوں اور گناہوں کو کبھی معاف نہیں کرتی اور بلاوجہ کسی قوم کو دیئے گئے اعزازات نہیں چینتی۔ ایسے مشکلات سے گھرے ہوئے دور میں قائدِ اعظم وہ واحد ہستی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو گمراہی اور غلامی کے کنویں سے نکال کر روشنی کی راہ دکھائی اور ان کا پورا پورا ساتھ مسلمانوں اور وقت کے عظیم لیڈر اور قومی شاعر علامہ اقبال نے دیا۔ 
علامہ اقبال نے اپنی پوری شاعری مسلمانوں کی اصلاح کے لئے وقف کردی۔ ان کی شاعری مسلمانوں کے لئے اندھیرے میں چراغ کا کام دے رہی تھی جس کی روشنی میں وہ اپنے کھوئے ہوئے راستوں کو دیکھر کر منزل کی جانب قدم بقدم بڑھ رہے تھے۔
علامہ اقبال کے خیال میں مسلمانوں کے اپنے ایمان کی وجہ سے قوتِ ارادی اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ مسلمان کی نگاہ سے وہ مشکل کام کیا جاسکتا ہے جو کہ تلوار اور ہتھیاروں سے کیا جاتا ہے۔ مسلم کے معنی ہیں مان لینے والا یا ”سر تسلیم خم کرنے والا“ اور پھر مسلم سے مراد یہ بھی ہے کہ وہ اللہ رب العزت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احکامات کو مانے اور اور ان کے مطابق زندگی بسر کرے۔
علامہ اقبال مسلمانوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اس کے علاوہ مسلمانوں کی خودی کی تعریف کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے کہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے 
شاعری میں اقبال نے مسلمانوں کی مدد کے لئے خداوند تعالی سے مدد مانگی اور مسلمانوں کے لئے جو اپنی راہ کھو کر غلط قسم کی تفریحات میں مشغول تھے۔ سیدھے راستے پر چلانے کی دعا کرتے ہوئے بے شمار اشعار کہے۔ ان کی اور قائدِ اعظم کی اور برصغیر کے دیگر مسلمانوںکی کوششوں سے مملکت خدادادِ پاکستان، ۴۱ اگست ۷۴۹۱ءکو وجود میںآیا۔ پاکستان جیسی نعمت ہمیں اتحادو اتفاق جیسی صفات عمل کرکے اپنی زندگی حق کے ساتھ اور باطل کے خلاف بسر کریں اور اپنے بہادر جرنیلوں خالد بن ولید، عبیدہ بن جراح ، محمد بن قاسم، سلطان صلاح الدین ایوبی ،محمود غزنوی، طارق بن زیاد، سرسید احمد خان، علامہ اقبال، اور قائدِ اعظم غرض انہی کی طرح اپنی زندگی کو اسلام کے لئے وقف کردیں۔

0 comments:

Post a Comment