تعلیمِ
دولتِ علم سے بہرہ مند ہونا ہر مردوزن کے لئے لازمی امر ہے۔ ترقی صرف اس قوم کی میراث ہے جس کے افراد زیورِ علم سے آراستہ و پیراستہ ہوں۔ علم کے بغیر انسان خدا کو بھی پہنچاننے سے قاصر ہے۔ کسی بھی عمل کے لئے علم ضروری ہے کیونکہ جب علم نہ ہوگا تو اس پر عمل کیسے ہوسکے گا۔
اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی حصول علم لازمی ہے۔ اسلام نے مردو عورت دونوں کے حصول، علم کی تاکید کی ہے۔ خواہ اس کے لئے دوردراز کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ علم ایک ایسا بہتا دریا ہے جس سے جو جتنا چاہے سیراب ہوسکتا ہے۔ لیکن شرط محنت اور لگن ہے۔ زندگی کی اقدار میں نکھار اور وقار علم سے ہی آسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت و مرد دونوں کی اہمیت یکساں ہے۔ ترقی کی راہوں پر آگے بڑھنے کے لئے عورتوں کے لئے بھی علم اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مردوں کے لئے ہے۔ گویا عورت اور مرد ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں جن میں سے ایک کی بھی علم سے لاتعلقی کائنات کے نظام کو درہم برہم کرسکتی ہے۔
خواتین کے فرائض مےں سے ایک اہم فریضہ بچوں کی پرورش، ان کی نگہداشت اور صحیح تربیت ہوتی ہے۔ بچے کی ابتدائی درسگاہ دراصل ماں کی گود ہوتی ہے۔ اگر ماں تعلیم یافتہ اور سلیقہ شعار ہو تو اولاد بھی صاحبِ علم اور مہذب ہوگی۔ بچے اپنی ماں سے طور طریقے اور آداب و اطوار حاصل کرتے ہیں۔ ایک ماں نے اپنی اولاد کے خیالات اور کردار کو سنوارنے کی ذمہ دار ہوتی ہے جب ماں کی بنیادیں مستحکم ہونگی تو بچے بھی معاشرے کے اہم فرد کی حیثیت سے ابھر سکتے ہیں۔
اسی لئے کہتے ہیں کہ
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
ایک تعلیم یافتہ اور باشعور ماں ہی قوم کی اس امانت میں اخلاقی ہمدردی اور ایثار پیدا کرکے جذبہ جب الوطنی بیدار کرتی ہے۔ باپ بھی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن فکرِ معاش کی وجہ سے وہ بچوں کو اپنا پورا وقت نہیں دے سکتا۔ اسی لئے بچوں کی پرورش کی اصل ذمہ داری ماں پر عائد ہوتی ہے۔ ماں جو ابتدائی تہذیب سکھاتی ہے۔ یہی بڑے ہوکر اسکی فطرت مین راسخ ہوجاتی ہے۔
اگر صلاحیتوں اور ذہانت کا مقابلہ کیا جائے تو عورتیں مردوں سے کسی بھی طور پر کم نہیں ہوتیں۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اب تک کئی خواتین اقتدارِ سلطنت حاصل کرچکی ہیں۔ لیکن جنہوں نے یہ کارنامے انجام دئیے وہ سب تعلیم کے زیور سے آراستہ تھیں، صاحب عقل حضرات کی سمجھ میں یہ بات آنی جاہئے کہ عورتوں کی تعلیم کو صرف ناظرہ و قرآن مجید تک محدود رکھنا اور دیگر علوم سے دور رکھنا کوئی عقلمندی نہیں۔ بعض حضرات کا خیال یہ ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ عورتیں فیشن پرست ہوجاتی ہےں، فضول خرچی ان کی عادت ہوجاتی ہے۔ اور اپنے فرائض کی انجام دہی صحیح طریقے سے نہیں کرپاتیں۔ لیکن یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ یہ تمام عادات کسی کو گھریلو ماحول سے ملتی ہیں۔ ترقی پسند لوگوں کو اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ اگر ہم انہیں پاکیزہ اور برائیوں سے پاک ماحول مےں تعلیم دیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ تعلیم نسواں معاشرہ میں کسی بگاڑ کا باعث بنے۔ اس طرح سے حصلہ افزاءنتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
پس ہمیں چاہیے کہ قدرت نے عورت کو جو فطری صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ ان کو بروئے کار لایا جائے اسی طرح ان میں وہ مطلوبہ صفات پیدا ہوسکتی ہیں جو خوش آئندہ مستقبل کی ضمانت ہیں۔
0 comments:
Post a Comment