Powered by Blogger.

Saturday, 2 February 2013

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی


عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی 


یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نا ناری ہے حکیم الامت شعرِ مشرق علامہ اقبال نے اس شعر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ عمل ہی ایک ایسی واحد شے ہے جس سے انسان اپنی زندگی کو کامیاب ، خوشگوار اور پرآشوب بناسکتا ہے۔ 

اللہ تعالی نے انسان کو زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے۔ اسی لئے اس ذاتِ پاک نے انسان کو بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے۔ عقل دی تاکہ اپنے لئے صحیح راستہ کا انتخاب کرے اور سعی و کوشش کی خوبی سے نوازا تاکہ اس کے منتخب کردہ راستے کے حصول کے لئے جدوجہدِ عمل سے کام لے، ہمت و استقلال، بردباری اور عرفان دیا تاکہ مقاصد کے حصول میں پیش آنے والی پریشانیوں کا مقابلہ کرسکے۔ اللہ تبارک و تعالی نے انسان کی حدود متعین کی ہوئی ہیں۔ جن کے اندر رہ کر انسان بہت کچھ کرسکتا ہے اور جہاں تک خدا چاہتا ہے اس سے آگے کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ مفلسی اور امیری بھی اللہ نے انسانوں کے اختیار میں کی ہے جس نے عمل کیا کوشش کی ترقی کی راہ اختیار کی اسی ترقی ملی ہے۔ جس نے عمل کیا، کوشش کی ترقی کی راہ اختیار کی 
اسے ترقی ملی ہے۔ 

 اللہ تعالی خود فرماتا ہے

انسان کے لئے کچھ نہیں سوائے اس کے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے 

کامیاب لوگوں کی ترقی کا زینہ بے اندازہ جدوجہد، شب و روز کی محنت اور عملِ پیہم سے مل کر بنا ہے۔ کم ہمتی اور بے عملی انسان کی ناکامی کا سبب بنتی ہے۔ وہ تدبیر کو چھوڑ کر تقدیر کے سرہانے بیٹھ کر روتے ہیں اور نتیجاً آنسو اور آہیں ان کا مقدر بن جاتے ہیں۔ قسمت بنی بنائی نہیں ہوتی بلکہ قسمت انسان خود بناتا ہے اگر اس کے مقاصد نیک ہوں تو باتدبیر عمل، صحیح سمت، محنت، لگن اور دیانت داری کے ذریعے وہ اپنی منزل ِ مقصود تک ضرور پہنچ جائے گا اور اس میں خدا اس کا حامی و ناصر ہوگا۔ اگر انسان کوتاہیوں اور غلط منصوبہ بندی سے کام لے گا تو اس کے لئے اپنے مقاصد کا حصول بہت زیادہ مشکل ہوجائے گا۔ 

صاحبِ عقل و فہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کامیابی کا راز عمل میں پنہاں ہے۔ کم ہمت لوگ جو کاہلی، تلون مزاجی اور بزدلی کی وجہ سے ناکام رہ جاتے ہیں۔ تقدیر کو مورودِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ لیکن یہ سراسر غلط ہے اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ انسان کوشش ترک کردے اور تقدیر پر سب کچھ چھوڑ دے۔ صاحبِ علم و فراست یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر آنے والے لمحے سے وابستہ داستانِ ”لوح ِ محفوظ“ میں قلمبند ہے جو کچھ ہم کریں گے وہ اس مےں لکھا ہے کم عقل حضرات اس سے یہ اندازہ بھی لگا لیتے ہیں کہ خواہ ہم کچھ بھی کرلیں وہی کچھ ہوگا جو تقدیر میں لکھا ہے۔ یہ سوچنا سراسر غلط ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو کسی کام کے کرنے کے لئے پابند کردیا گیا ہے۔ 

ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہر بڑا آدمی اپنے عزم و استقلال اور ہمت و جوانمردی سے تدبیرو عمل کے ذریعے اپنے لئے راہ ہموار کرتا ہے۔ وہ عزت، شہرت، شان و شوکت غرض سب کچھ جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم سے حاصل کرتا ہے۔ اسے اپنی زندگی میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ ہمت و استقلال پر قائم رہتا ہے اور اپنے ارادوں کو چٹان کی طرح مضبوط رکھتا ہے۔ ہر کامیاب انسان اپنے مقصد سے غافل نہیں ہوتا۔ فضول گفتار میں وقت جیسی اہم چےز کو برباد نہیں کرتا۔ تمام اہلِ شہرت و عزت کی کامیابی کا راز عمل ہے۔ ان کی زدنگی سے ہمیں دعوتِ عمل ملتی ہے۔ 

پس انسان کی زندگی اس کے اپنے اعمال و کردار سے بنتی ہے 

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا

تعلیمِ (مضمون)


 تعلیمِ 

دولتِ علم سے بہرہ مند ہونا ہر مردوزن کے لئے لازمی امر ہے۔ ترقی صرف اس قوم کی میراث ہے جس کے افراد زیورِ علم سے آراستہ و پیراستہ ہوں۔ علم کے بغیر انسان خدا کو بھی پہنچاننے سے قاصر ہے۔ کسی بھی عمل کے لئے علم ضروری ہے کیونکہ جب علم نہ ہوگا تو اس پر عمل کیسے ہوسکے گا۔ 

اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی حصول علم لازمی ہے۔ اسلام نے مردو عورت دونوں کے حصول، علم کی تاکید کی ہے۔ خواہ اس کے لئے دوردراز کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ علم ایک ایسا بہتا دریا ہے جس سے جو جتنا چاہے سیراب ہوسکتا ہے۔ لیکن شرط محنت اور لگن ہے۔ زندگی کی اقدار میں نکھار اور وقار علم سے ہی آسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت و مرد دونوں کی اہمیت یکساں ہے۔ ترقی کی راہوں پر آگے بڑھنے کے لئے عورتوں کے لئے بھی علم اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مردوں کے لئے ہے۔ گویا عورت اور مرد ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں جن میں سے ایک کی بھی علم سے لاتعلقی کائنات کے نظام کو درہم برہم کرسکتی ہے۔ 

خواتین کے فرائض مےں سے ایک اہم فریضہ بچوں کی پرورش، ان کی نگہداشت اور صحیح تربیت ہوتی ہے۔ بچے کی ابتدائی درسگاہ دراصل ماں کی گود ہوتی ہے۔ اگر ماں تعلیم یافتہ اور سلیقہ شعار ہو تو اولاد بھی صاحبِ علم اور مہذب ہوگی۔ بچے اپنی ماں سے طور طریقے اور آداب و اطوار حاصل کرتے ہیں۔ ایک ماں نے اپنی اولاد کے خیالات اور کردار کو سنوارنے کی ذمہ دار ہوتی ہے جب ماں کی بنیادیں مستحکم ہونگی تو بچے بھی معاشرے کے اہم فرد کی حیثیت سے ابھر سکتے ہیں۔ 
اسی لئے کہتے ہیں کہ 

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

ایک تعلیم یافتہ اور باشعور ماں ہی قوم کی اس امانت میں اخلاقی ہمدردی اور ایثار پیدا کرکے جذبہ جب الوطنی بیدار کرتی ہے۔ باپ بھی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن فکرِ معاش کی وجہ سے وہ بچوں کو اپنا پورا وقت نہیں دے سکتا۔ اسی لئے بچوں کی پرورش کی اصل ذمہ داری ماں پر عائد ہوتی ہے۔ ماں جو ابتدائی تہذیب سکھاتی ہے۔ یہی بڑے ہوکر اسکی فطرت مین راسخ ہوجاتی ہے۔ 

اگر صلاحیتوں اور ذہانت کا مقابلہ کیا جائے تو عورتیں مردوں سے کسی بھی طور پر کم نہیں ہوتیں۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اب تک کئی خواتین اقتدارِ سلطنت حاصل کرچکی ہیں۔ لیکن جنہوں نے یہ کارنامے انجام دئیے وہ سب تعلیم کے زیور سے آراستہ تھیں، صاحب عقل حضرات کی سمجھ میں یہ بات آنی جاہئے کہ عورتوں کی تعلیم کو صرف ناظرہ و قرآن مجید تک محدود رکھنا اور دیگر علوم سے دور رکھنا کوئی عقلمندی نہیں۔ بعض حضرات کا خیال یہ ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ عورتیں فیشن پرست ہوجاتی ہےں، فضول خرچی ان کی عادت ہوجاتی ہے۔ اور اپنے فرائض کی انجام دہی صحیح طریقے سے نہیں کرپاتیں۔ لیکن یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ یہ تمام عادات کسی کو گھریلو ماحول سے ملتی ہیں۔ ترقی پسند لوگوں کو اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ اگر ہم انہیں پاکیزہ اور برائیوں سے پاک ماحول مےں تعلیم دیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ تعلیم نسواں معاشرہ میں کسی بگاڑ کا باعث بنے۔ اس طرح سے حصلہ افزاءنتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ 

پس ہمیں چاہیے کہ قدرت نے عورت کو جو فطری صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ ان کو بروئے کار لایا جائے اسی طرح ان میں وہ مطلوبہ صفات پیدا ہوسکتی ہیں جو خوش آئندہ مستقبل کی ضمانت ہیں۔

ہمت کرے انسان تو کیا ہونہیں سکت


ہمت کرے انسان تو کیا ہونہیں سکت

ہمت، تحمل اور بردباری کا مطلب کسی کام کو پختگ ہے· ارادہ سے انجام دینا اور اس کام کو پایہ اور تکمیل تک پہنچانے میں جو دشواریاں اور مشکلات آئیں۔ انہیں برداشت کرکے ثابت قدم رہنا ہے۔ ہمت ہر مشکل کام کو آسان بنادیتی ہے۔ہمت کے استعمال سے گریز کرنے والا انسان سستی، کاہلی اور نکمے پن کو دعوت دیتا ہے۔ اللہ نے انسان کو جتنی بھی صلاحیتیں عطا کیں ہیں۔ اس کا صحیح استعمال انسان کو انسانیت کے عظیم درجے پر پہنچا دیتا ہے

مشکلے سنیت کہ آسان نشود
مرد باید کہ ہر اساں نشود 
دنیاکی ترقی، ایجادات، تحقیق ق تجسس، سائنس کے کارنامے، انجن، ریل گاڑیاں، مواصلاتی نظام، ٹیلیفون اور ایٹمی توانائی، انسان کی چاند تک پہنچ اور ہوا، آگ اور پانی پر حکمرانی سب ہمت کے کرشمے ہیں۔ اگر انسان ہمت کرے تو مٹی سے سونا پیدا کرسکتا ہے۔ تاریکیوں کا سفر ترک کرکے شہرت و دولت حاصل کرسکتا ہے۔ ہمت اور صحیح طریقے پر محنت کے بغیر کوئی شخص کامیابی حاصل نہیں کرسکتا
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا، تب نگین ہوا 
ہمت، محنت، استقلال، اور بردباری کے ذریعے ہی بڑے بڑے سیاستدان، ڈاکٹر، ماہرین فن، موجد و مہ اور قلمکار اس مقامِ خاص تک پہنچے جہاں آج ہم انہیں کھڑا ہوا پاتے ہیں۔ تمام افراد جو کامیابی کے اس زینے تک پہنچے وہ مشکلات و مصائب کا مقابلہ ثابت قدمی سے کرتے ہوئے اپنے نصب العین کی طرف گامزن رہے اور بالآخر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔ انسان کے کے لئے کوئی کام مشکل و ناممکن نہیں ہوتاسوائے ان کاموں کے جو اللہ تعالی کی ذات کے مخصوص ہیں۔ مثلاً تخلیقِ کائنات صرف خداوندِ کریم ہی کرسکتا ہے۔ کوئی دوسرا اس کا اہل نہیں ہوسکتا۔ آج کا انسان چاند تک پہنچ چکا ہے۔ زمین و آسمان، کوہسار و یگزار اور ہوا و پانی غرض ہر شے کو تسخیر کرچکا ہے۔ اور یہ سب کچھ صرف ہمت، محنت، لگن، استقلال اور عزمِ صمیم کی بدولت ہے۔
ہمت کے آگے نہ سمندر رکاوٹ بن سکتا ہے اور نہ پہاڑ ہمت میں لغزش پیدا کرسکتے ہیں اور نہ ہی دشت و صحرا آج تک انسان کا راستہ روک سکے ہیں۔ طارق بن زیاد نے اپنی ہمت و شجاعت کا عملی مظاہرہ کیا، جنگِ بدر میں مجاہدینِ اسلام نے اس کا عملی ثبوت دیا ، اندلس کی سرزمین مسلمانوں کی ہمت و عظمت کی گواہ ہے اور افغانستان سے روسیوں کا انخلاءعظم و ہمت کی منہ بولتی تصویر ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ مارے عظیم رہنما قائد اعظم نے ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ ایک طرف انگریزوں کی مکاری اور چابازی تھی تو دوسری طرف ہندو کا تعصب تھا۔ ستم بالاستم اپنوں میں بھی بیگانے موجود تھے۔ قائدِ اعظم اور دیگر رہنما نے بشمول برصغیر کے تمام مسلمانوں نے ہمت اور عزم سے کام لیا اور ثابت قدم رہے۔ شجاعت و بردباری سے ایک مضبوط چٹان کی طرح دشمنوں کے سامنے ڈٹے رہے اور بالآخر خدا نے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اسی طرح دنیا کی دیگر بڑی بڑی ہستیوں کی سوانح حیات کا مطالعہ ہمیں ان کی کامیابی میں پنہاں راز تک پہنچا دے گا جو کہ ہمت و استقلال میں پوشیدہ ہے۔
قائدِ اعظم کا قول ہے کہ:

کسی کام کو کرنے سے پہلے سوبار سوچو کہ یہ کام ٹھیک ہے مجھے ایسا کرنا چاہئے۔ جب تمہارا ذہن فیصلہ دے دے کہ ہاں ایسا کرنا درست ہے۔ اس میں کوئی برائی نہیں تو اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مضمم ارادہ کرلو اور دم اس وقت لو جب اسے پورا کرلو۔ اس بات سے نہ گھبرا کے راستے میں مشکلات آئیں گی، رکاوٹیں ہونگی، دشمنوں کی مخالفت ہوگی۔ اپنی منزل کی طرف نگاہ کرکے آگے بڑھتے چلے جاو۔ انشاءاللہ کامیابی ضرور تمہارے قدم چومے گی۔ بقول شاعر
وہ کون سا عقیدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا

سمندر کے کنارے ایک شام


   سمندر کے کنارے ایک شام         

گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوچکی تھیں۔ میں نے پہلے ہی ہفتہ میں اسکول کا دیا ہوا گھر کا کام ختم کرلیا تھا۔ اس لئے اس طرف سے بے فکر اور مطمئن تھا۔ وقت کی کمی نہ تھی چنانچہ مجھے تفریح کی سوجھی اور میں نے چند دوستوں کے ساتھ ہاکس بے جانے کا پروگرام بنالیا۔ 

پکنک پر جانے سے ایک دن پہلے ہم بازار گئے اور وہاں سے کھانے پینے کی اشیاءخریدیں اور منی بس بھی کرائے پر لی اور آپس میں دیگر ذمہ داریاں تقسیم کرلیں۔ کسی نے کباب کا ذمہ لیا تو کسی نے کولڈ ڈرنگ کاذمہ اور کسی نے پراٹھے لے آنے کا۔ 

اب جب روانہ ہوئے تو صبح کے سات بجے کا وقت تھا۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے میں ہم لوگ ہاکس بے جاپہنچے۔ سب سے پہلے ہم نے ہٹ کرائے پر لیااور سامان وغیرہ رکھ کر تیراکی کے شوق میں پانی میں اتر گئے۔ گرمی عروج پر تھی اور ہم پسینے میں شرابور ہوگئے تھے۔ اس لئے تیرنے میںبڑا مزہ آیا۔ ہم اپنے گیند بھی لے گئے تھے اس لئے واٹر پولو کھیلنے میں بڑا مزا آیا۔۔ 

ایک بجے ہم سب ہٹ میں واپس آگئے۔ ہم تیر تیر کر خوب تھک چکے تھے۔ اس لئے بھوک کے مارے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ ہم نے سیر ہوکر کھایا اور کچھ دیر ریت پر لیٹ گئے اور گپ بازی کرنے لگے۔ چاربجے ہم نے چائے پی۔ پھر ہم سب کھیلنے اور سیپیاں جمع کرنے پانی کے قریب گئے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی، عزم اور لطف اندوز ہوائیں چل رہی تھےں۔ ہم میں سے چند نے پھر تیرنا شروع کردیا۔ غرض ان مشاغل میں دن ڈھل گیا اور موجیں زور زور سے اٹھنے لگیں۔ ایسا محسوس ہوا کہ پانی کی اونچی اونچی دیواریں یکے بعد ساحل کی طرف بڑھ رہی ہیں اور جیسے تماشائیوں کے ہجوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ 

دن بھر کا تھکا ماندا آفتاب افقِ مغرب کی اوٹ میں سرنگوں تھا۔ ہلکی ہلکی خنک ہوا طبیعت میں کسل مندی پیدا کررہی تھی اور آسمان کے کنارے شفق رنگین بڑے دیدہ زیب نظر آرہے تھے۔ دور تک سرخ دھاریں اس طرح پھیل گئی تھیں جیسے عروسِ شام رنگین آنچل سے ڈھلک گئی ہو۔ ہم کافی دیر سے غروبِ آفتاب کے اسی روح پرور نظاری سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ آخر شام کی سیاہی بڑھی اور ہم سارے دوست ہٹ میں واپس آگئے اور دسترخوان کے گرد بیٹھ گئے اور کھانے کی اشیاءپر ٹوٹ پڑے۔ 

ویگن پر سوارہوکر واپس گھر کی طرف روانہ ہوئے تو ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔ اپنے اپنے گھروں تک پہنچنے میں ہم بہت تھک چکے تھے۔ مگر اس میں ایک کیف و سرور کا احساس شامل تھا۔ ساحلِ سمندر پر گزری ہوئی یہ شام ہمارے لئے ایسے جلووں، ایسی دلآویزی و دلکشی اور سامانِ فرحت رکھتی ہے کہ اس کی یاد ہمیں کبھی نہیں بھولتی
۔


عجائب گھر


عجائب گھر

عجائب گھر کا نام اس کے لئے بہت موزوں ہے۔ اس کا نام ہی اس کی طرز کی عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ نہ جانے یہ مقام کیسی کیسی عجیب و غریب چیزوں کا گھر گو۔ عجائب گھر کا نام ہمارے لئے بھی باعثِ تجسس تھا۔ اسی لئے ہم نے بھی ایک دن لاہور کا عجائب گھر دیکھنے کی ٹھانی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں لاہور شہر میں سکونت اختیار کئے ہوئے تھا۔ ہم تمام دوستوں نے صلاح و مشورے سے یہ تجویز کیا کہ جمعہ کے دن عجائب گھر کی سیر کو چلیں گے۔ باقی دوستوں کو تو اپنے والدین سے باآسانی اجازت مل گئی لیکن ہمیں ذرا مشکل پیش آئی بہرحال یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا۔
ہمارے ایک استاد بھی ہمارے ساتھ عجائب گھر جانے کو تیار ہوگئے تھے۔ جمعہ کے دن ہم تمام دوست اپنے استاد محترم جمال صاحب کے ساتھ عجائب گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ تقریباً گیارہ بجے ہم لوگ عجائب گھرکے دروازے پر تھے۔ عجائب گھر ایک بہت ہی کھلی اور خوبصورت سڑک کے کنارے واقع ہے اس کی عمارت بڑی شاندار ہے اور اردگرد باغیچہ ہے۔ اس کے سامنے کی جانب پنجاب یونیورسٹی ہے۔ ہم نے ٹکٹیں خریدں اور عجائب گھر میں داخل ہوگئے۔
عجائب گھر کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصہ ایسا ہے جہاں پرانے زمانے کے مٹی کے بنے ہوئے برتن، کھلونے، مورتیاں اور ایسی چیزیں اور ہتھیار موجود ہیں جو اس زمانے کی تہذیب و تمدن کا پتہ دیتی ہیں۔ یہ تمام اشیاءدھات کے زمانے سے بھی قبل کی ہیں۔ دوسرے حصے میں لکڑی کی اشیاءہیں جن میں مہاتما بدھ کا مجسمہ قابلِ ذکر ہے۔ وہاں کی ہرشے اپنے دور کی عکاسی کرتی ہے۔ تمام اشیاءپر ان کے مختصر کوائف درج ہوتے ہیں۔ اور احتیاط کے پیشِ نظر ان اشیاع کو چھونے کی ممانعت ہوتی ہے کہ ہاتھ لگانے سے ان نوادرات کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے اور دوسرے یہ کہ ان پر لگے ہوئے کیمکلز سے ہمیں بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ 

مسلمانوں کے دورِ حکومت نے بھی نوادرات کا بیش بہا خزانہ ہمارے لئے چھوڑا ہے۔ جابجا سامانِ حرب، ذرہ بکتر اور لباس بھی رکھے وہئے ہیں۔ یہ لباس اس قدر بھاری بھرکم نظرم آرہے تھے کہ انہیں پہن کر چلنا تو درکنار انہیں اٹھا کر چلنا بھی ہمارے لئے دشوار کام ہوتا۔ اس بات سے ہم نے پرانے لوگوں کی طاقت کا اندازہ لگایا کہ واقعی ان کی طاقت و شجاعت میں کوئی شک نہیں۔
ایک اورحصہ میں زمانہ قدیم کی مصنوعات تھیں جن میں اکثر عام پتھر اور سنگِ مرمر سے بنی ہوئی تھیں۔ اور ان اشیاءکو دیکھ کر اس زمانے کے کاریگروں کی فنکارانہ صلاحیتوں اور محنت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اکثر مقامات پر کپڑوں کے نمونے نظر آتے ہیںجن پر نقاشی کی گئی ہے۔ عجائب گھر میں مختلف زمانے کے سکے بھی پڑے ہوئے ہیں جن پر لکھی ہوئی عبارت پڑھنا ہمارے بس سے باہر ہے۔ اسی طرح پتھروں پر بھی عبارتیں کھدی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید کے قلمی نسخے بھی یہاں پر موجود ہیں جن کے رسم الخط نہایت عمدہ ہیں جو اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے مختلف ہیں۔
سیاحوں اور تاریخ دانوں کے لئے عجائب گھر بہت زیادہ کشش رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ ان کی معلومات میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ اسی لئے سیاحت کے فروغ کے لئے عجائب گھر کا صحیح انتظام لازمی ہے۔

عزائم کو سینوں میں بیدار کردے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کردے 
آج جو مملکتِ خداداد پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ آج سے تقریباً ۵۴ سال پہلے یہاں کی یہ حالت تھی کہ یہاں پر مسلمان کے خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی۔ یہی وہ ملک ہے جہاں کی صدیوں پرانی شاندار تہذیب و ثقافت کو انگریزوں نے اپنے دستِ ستم سے بری طرح نقصان پہنچایا۔
مندرجہ بالا علامہ اقبال کا شعر جو کہ مسلم کی نگاہ کو تلوار کی حیثت سے دلکش انداز میں پیش کررہا ہے۔ اسی شعر کے موضوع پر ان حقیقی کاوشوں کا ذکر کیا ہے۔ جس کے باعث ہم نے مملکتِ خداداد پاکستان حاصل کیا۔ ویسے تو ان حالات کو بیان کرنے کے لئے کئی دفاتر درکار ہیں۔ مگر یہ بات بھی ایک حقیقت کہ مسلمانوں نے برصغیر پاک و ہند پر ایک سو سال تک حکومت کی تھی اور ان کے بعض حکمران کی غفلت کی وجہ سے برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں کی گرفت کمزور پڑتی گئی اور اغیار کا تسلط قائم ہوگیا اور پورے ہندوستان پر وہ انگریز تاجر جو کہ وہاں صرف تجارت کی غرض سے آئے تھے حاکم بن کر بیٹھ گئے اور وہاں کے باسیوں پر طرح طرح کے ظلم و ستم روا رکھتے لگے۔
ایسے کڑے وقت میں ہندووں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا اور پوری مسلم قوم ایک ایسے شکنجے میں جکڑ گئی جو کہیں سے کھلا ہوا نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ مسلمانوں کی غفلت کا نتیجہ تھا۔ کیونکہ قدرت کسی قوم کی اجتماعی برائیوں اور گناہوں کو کبھی معاف نہیں کرتی اور بلاوجہ کسی قوم کو دیئے گئے اعزازات نہیں چینتی۔ ایسے مشکلات سے گھرے ہوئے دور میں قائدِ اعظم وہ واحد ہستی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو گمراہی اور غلامی کے کنویں سے نکال کر روشنی کی راہ دکھائی اور ان کا پورا پورا ساتھ مسلمانوں اور وقت کے عظیم لیڈر اور قومی شاعر علامہ اقبال نے دیا۔ 
علامہ اقبال نے اپنی پوری شاعری مسلمانوں کی اصلاح کے لئے وقف کردی۔ ان کی شاعری مسلمانوں کے لئے اندھیرے میں چراغ کا کام دے رہی تھی جس کی روشنی میں وہ اپنے کھوئے ہوئے راستوں کو دیکھر کر منزل کی جانب قدم بقدم بڑھ رہے تھے۔
علامہ اقبال کے خیال میں مسلمانوں کے اپنے ایمان کی وجہ سے قوتِ ارادی اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ مسلمان کی نگاہ سے وہ مشکل کام کیا جاسکتا ہے جو کہ تلوار اور ہتھیاروں سے کیا جاتا ہے۔ مسلم کے معنی ہیں مان لینے والا یا ”سر تسلیم خم کرنے والا“ اور پھر مسلم سے مراد یہ بھی ہے کہ وہ اللہ رب العزت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احکامات کو مانے اور اور ان کے مطابق زندگی بسر کرے۔
علامہ اقبال مسلمانوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اس کے علاوہ مسلمانوں کی خودی کی تعریف کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے کہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے 
شاعری میں اقبال نے مسلمانوں کی مدد کے لئے خداوند تعالی سے مدد مانگی اور مسلمانوں کے لئے جو اپنی راہ کھو کر غلط قسم کی تفریحات میں مشغول تھے۔ سیدھے راستے پر چلانے کی دعا کرتے ہوئے بے شمار اشعار کہے۔ ان کی اور قائدِ اعظم کی اور برصغیر کے دیگر مسلمانوںکی کوششوں سے مملکت خدادادِ پاکستان، ۴۱ اگست ۷۴۹۱ءکو وجود میںآیا۔ پاکستان جیسی نعمت ہمیں اتحادو اتفاق جیسی صفات عمل کرکے اپنی زندگی حق کے ساتھ اور باطل کے خلاف بسر کریں اور اپنے بہادر جرنیلوں خالد بن ولید، عبیدہ بن جراح ، محمد بن قاسم، سلطان صلاح الدین ایوبی ،محمود غزنوی، طارق بن زیاد، سرسید احمد خان، علامہ اقبال، اور قائدِ اعظم غرض انہی کی طرح اپنی زندگی کو اسلام کے لئے وقف کردیں۔

صحت و صفائی سے متعلق اخبار کے مدیر کے نام درخواست



                           صحت و صفائی سے متعلق اخبار کے مدیر کے نام درخواست

کمرہ امتحان   
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
مدیر محترم
روزنامہ جنگ کراچی
اسلام وعلیکم!

میں آپ کا روزنامہ باقاعدگی کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے اپنے اخبارکا ایک صفحہ عوامی شکوے ، شکایات اور مسائل کی اشاعت کے لئے وقف کردیا ہے تاکہ لوگوں کے مسائل موثر انداز میں متعلقہ حکام تک پہنچ سکیں۔

لہذا میں آپ کے اخبار کی وساطت سے متعلقہ حکام کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ عرصہ دراز سے ہمارے علاقے میں صفائی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کر تقریباً ختم ہوگئیں ہیں۔ جگہ جگہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے ہیں۔ گٹر آئے دن بند رہتے ہیں۔ گندا پانی جگہ جگہ کھڑا ہے۔ بارش کے زمانے میں تو گندگی اور بدبو کی انتہا ہوجاتی ہے۔ گندگی اور گندے پانی کی وجہ سے مکھیوں، مچھروں اور زہریلے کیڑوں کی بھرمار ہے۔ علاقے کے لوگ بہت پریشان ہیں۔ خطرناک اور مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ کیونکہ صفائی اور پانی کے نکاس کی صورتِ حال انتہائی خراب ہے۔ ہم بار بار متعلقہ افسران کو درخواستیں دے چکے ہیں لیکن ابھی تک کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

امید کرتا ہوں کہ آپ میری یہ عرضداشت حکامِ بالا تک پہنچانے کا ذریعہ بنیں گے اور متعلقہ حکام معاملے کی نزاکت کو محسوس کریں گے اور احساسِ ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے اس مسئلے کے جلد حل کے لئے موثر اقدامات کریں گے۔

فقط
آپکی عنایتوں کا طالب
ا - ب -ج

پانی کی قلت سے متعلق کونسلر کے نام درخواست

پانی کی قلت سے متعلق کونسلر کے نام درخواس 

کمرہ امتحان 
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
بلگرامی جناب کونسلر صاحب
کراچی ۸۳ زون
اسلام وعلیکم!

نہایت ادب سے آپ کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ہمارے علاقے پانی کی شدید قلت ہے۔ گرمی اپنے عروج پر ہے اور ہمارے علاقے میں پانی کا یہ حال ہے کہ کئی دن تک پانی بالکل نہیں آتا اور اگر بھولے سے آبھی جائے تو اتنی قلیل مقدار میں کہ استعمال کے لئے ناکافی ہوتا ہے۔ جسکی وجہ سے ہمیں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گرمی روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے اور پانی کی قلت کا یہ حال ہے کہ کئی کئی دن بغیر نہائے گزر جاتے ہیں۔ تمام محلہ والوں کی جان عذاب میں پڑی ہوئی ہے۔

آپ کی خدمت میں گذارش ہے کہ متعلقہ حکام پر زور دیں تاکہ وہ ہمیں اس مشکل سے نجات دلائیں اور پانی کا انتظام بہتر کریں۔

شکریہ
آپکی توجہ کا طالب
ا - ب -ج

اپنے دوست کو خط لکھئے جس میں سادہ زندگی گزارنے کی اہمیت بیان کریں

 دوست کو خط لکھئے جس میں سادہ زندگی گزارنے کی اہمیت بیان کری  


کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
میرے پیارے دوست،
اسلام وعلیکم

میرے عزیز یہ کیا تم ہر خط میں لکھتے ہو کہ فلاں نے کار خریدلی، فلاں دوست دوبئی چلا گیا ہے۔ فلاں شخص نے بنگلہ بنالیا ہے۔ فلاں رشتہ دار نے ٹی وی ڈش اور وی سی آر لے لیا ہے۔ فلاں یہ کررہا ہے اور فلاں وہ کررہا ہے۔ شاید تمہیں علم ہی نہیں بہترین زندگی گزارنے کا اصول یہ ہے کہ علمی اور دینی معاملات میں اپنے سے اونچے اور اعلی درجے والوں کی پیروی کرنا چاہئے اور دنیاوی معاملات میں ہمیشہ اپنی حیثیت سے کم والوں پر نظر رکھنا چاہئے اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے تمہیں لاکھوں سے بہتر بنایا۔ سادہ اور قناعت پسند زندگی ہی میں چین و سکون اور آرام ہے۔ انسان کی عزت مال و دولت ہی سے نہیں، اچھی سیرت و کردار سے بھی ہوتی ہے۔ انسان کو اپنی چادر دیکھ کر ہی پاوں پھیلانا چاہئے۔ ہمارے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضہ کی سادہ اور کامیاب ترین زندگیوں کے نمونے ہمارے سامنے ہیں۔ اسلام نے کبھی اچھے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے اور رہنے سہنے کی مخالفت نہیں کی۔ ہاں سادگی اپنانے اور فضول خرچی نہ کرنے کی تلقین کی ہے۔

ہم نے نام و نمود اور سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے شادی بیاہ، تہواروں ، تقریبات اور دیگر فضول رسموں پر جو بے حدو حساب خرچ کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ تباہی کا راستہ ہے ۔ اب تو عالم یہ ہوگیا ہے کہ مرنے والے کی ویڈیو فلم تک بنانے کا رواج چل نکلا ہے۔ اس کا سوئم اور چالیسواں اس طرح دھوم دھام سے کیا جاتا ہے کہ گویا خوشی کی تقریب کا اہتمام کیا ہو۔ بے عقل اور تقلید پسند لوگوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ وہ وسائل نہ ہونے کے باوجود ادھار قرض لے کر سب کچھ کرتے ہیں۔ ان ہی حرکات کی وجہ سے معاشرے میں حلا ل و حرام اور جائز و ناجائز کا فرق مٹتا جارہا ہے۔

ہم مسلمان ہیں ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضہ اور اپنے اسلاف کے طریقوں کو مشعلِ راہ بنانا چاہئے۔ سادہ زندگی گزارنے والے کبھی دوسروں کے محتاج نہیں ہوتے۔ ان کے بہترین کردار ، سیرت، غیرت اور خودداری کی وجہ سے اللہ بھی خوش ہوتا ہے اور لوگ بھی۔

فقط
تمہارا دوست
ا - ب -ج

اپنے دوست کو نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لئے خط لکھیں

 دوست کو نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لئے خط لکھیں

کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
پیارے دوست۔
اسلام وعلیکم!

کافی عرصہ ہوگیا تمہاری جانب سے کوئی خیر خبر موصول نہیں ہوئی جس کی وجہ سے مجھے تمہارے بارے میں کافی تشویش لاحق ہی۔ امید ہے تم خیریت سے ہوگے۔ امید ہے تم خیریت سے ہوگے اور اس خط کے ملتے ہی میرے خیال کی تصدیق کے لئے اپنے بارے میں لکھو گے۔

۳۲ مارچ قریب قریب ہے۔ میں نے سوچا تمہیں پیشگی مبارکباد دے دوں۔ اس بہانے تمہاری خیریت سے آگاہی بھی ہوجائے گی۔ اس دن کی اہمیت کا تمہیں بخوبی اندازہ ہی کہ اس دن مولوی فضل الحق نے قراردادِ پاکستان پیس کی جسے ابتدا میں قراردادِ لاہو کے نام سے پکارا جاتا تھا۔

یہ مسلمانوں کا اتحاد تھا جس کی بدولت اس قرارداد کے مطابق ایک نظریاتی مملکت پاکستانوجود میں آئی۔ جسی ۶۵۹۱ءمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دیا گیا۔ نظریہ پاکستان مغربی مفکرین کے نظریات سے یکسر مختلف ہے جس میں رنگ و نسل اور علاقہ وزبان کو کوئی انفرادی حیثیت حاصل نہیں ہے۔یہ نظریہ اس لئے وجود میں آیا کہ مسلمان حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے ضابطہ حیات پر عمل پیرا ہوسکیں، باہم میل جول، رواداری، اخوت، آزاد· فکر اور اخلاق و کردار کے اعتبار سے مثالی حیثیت کے مالک بن سکیں۔ لیکن آج ہم علاقائی اور لسانی فسادات میں بری طرح گھرے ہوئے ہیں۔ اس طرح تو ہم کسی صورت بھی نظریہ پاکستان کے بنیادی مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اس طرح ہم نظریہ پاکستان کے استحکام میں مسلسل خطرات پیدا کررہے ہیں۔ ہمارا تحفظ اور ہماری بقاءخطرے میں ہے۔

آو ہم عہد کریں کہ اس سال ۳۲ مارچ کو اتنے جوش و خروش کے ساتھ منائیں کہ ہمارے دلوں سے ہر قسم کے تعصبات دور ہوجائیں اور دلوں میں اخوت، مساوات اور ہمدردی اپنا گھر کرلے اور قومی اتحاد کی ایک مثال قائم کریں۔ یہی تو نظریہ پاکستان' کا نصب العین ہے۔'
اپنے گھر والوں کو حسبِ مراتب میری جانب سے سلام دعا کہنا۔

ِفقط
تمہارا دوست
ا - ب -ج

امتحان کی تیاری کے لئے چھوٹے بھائی کو خط


امتحان کی تیاری کے لئے چھوٹے بھائی کو خط

                                                                                                                                                                                                        کمرہ امتحان                                                                                                          
                                                                            کراچی
                                                                    ۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
                                            پیارے بھائی، خوش رہو 



تین دن قبل تمہارا خط پاکر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ تم نے بتایا کہ ڈیڑھ مہینہ بعد تمہارے امتحان ہورہے ہیں اور یہ سن کرمجھے بہت خوشی ہوئی کہ تم امتحان کی تیاریوں میں مصروف ہو۔ 

میں تمہیںاپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں چند ہدایات دے رہا ہوں اور ان پر عمل کرکے انشاءاللہ تم امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرسکتے ہو۔ مجھے امید ہے کہ تم میرے مشوروں پر 
عمل کرنے کی پوری کوشش کروگے۔ 

سب سے پہلے تو تم آج ہی اپنا روزمرہ کا ایک ٹائم ٹیبل بنالو اور اس میں نصاب کے تمام مضامین کے لئے وقت مقرر کردو کسی ایک مضمون کو بھی اپنی توجہ سے محروم نہ رکھو۔ یہ تمہارے لئے باعثِ نقصان ہوگا۔ اپنا مقررہ اوقات پر عملدرآمد کے لئے تمہیں صبح سویرے اٹھنا ہوگا فجر کی نماز کے بعد اور اسکول جانے کی تیاری تک کچھ نہ کچھ ضرور یاد کرلو۔ کوئی بھی عنوان یاد کرو اسے لکھ کر ضرور دیکھناچاہئے۔ نصاب کی کتابوں میں جو بھی مشکلات پیش آئیں ان کے لئے فوراً اساتذہ کرام سے تعاون حاصل کرنا چاہئے۔ شام کے وقت کھیل کود میں بھی ہصہ لینا چاہئے۔ اہم کاموں کے علاوہ دیگر کاموں میں وقت ضائع نہ کرو۔ زیادہ سے زیادہ وقت پڑھائی کرنے کی کوشش کرو۔ 
اور رات کو جلد سوجا تاکہ صبح کو جلدی اٹھ سکو۔ 

میں اور تمام گھر والے تمہاری کامیابی کی دعا کریں گے اور ہم انتظار کررہے ہیں کہ کب تم 
امتحان سے فارغ ہوکر گھر ٓآو گے۔ 

فقط 
تمہارا بڑا بھائی 
ا - ب -ج


اپنے دوست یا بھائی کے نام خط لکھئے جس میں تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالئے


اپنے دوست یا بھائی کے نام خط لکھئے جس میں تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالئے

                                                                                                                        کمرہ امتحان
کراچی 
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ 

میرے پیارے دوست، 
اسلام وعلیکم 

تمہارا خط ملا۔ پڑھ کر تعجب ہوا کہ تم تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کو دیکھ دیکھ کر تعلیم سے اکتانے لگے ہو اور اب تمہارا دل تعلیم حاصل کرنے مےں نہیں لگ رہا ہے۔ یہ کسی قسم کی مایوسی کی باتیں کرنے لگے ہو۔ تم تو ہمیشہ شاندار مستقبل اور عزم و ہمت کی باتیں کرتے تھے۔ 
کل ہی میں نے تمہاری کتاب میں ڈپٹی نذیر احمد کا خط دیکھا۔ کتنی عمدہ بات انہوں نے اپنے بیٹے کو لکھی ہے کہ رزق و نوکری تو انسان کو اپنے مقدر سے ملتی ہے۔ علم اس لئی حاصل کرو کہ تمہارے اندر علمیت، قابلیت اور لیاقت پیدا ہوتا ہے کہ ہم عصروں میں انفرادیت اور ممتاز حیثیت حاصل کرسکو۔ جہاں جاو لوگ عزت تعظم کریں اور تم ہی سب کی نگاہوں کا مرکز ہو۔ 

انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف علم و آگہی کی بدولت حاصل ہے۔ دین و دنیا کی تمام تر ترقیاں اور بلندیاں علم ہی کے دم سے ہیں۔ اس لئے اسلام نی سب سے زیادہ زور دلم حاصل کرنے پر دیا ہے۔ علم کے سمندر مےں جتنے غوطے لگاو گے اتنے ہی نکھر کر اوپر آوگے۔ علم حاصل کرنے کے لئے مہد سے لحد تک کوئی وقت کی قید نہیں۔ ہاں عزم و ہمت اور مسلسل جدوجہد کامیابی و کامرانی کا زینہ ہے۔ 
تم بہت محنتی ہو۔ کاش! تم بھی اپنے اسلاف کی طرح کوئی ایسا علمی کارنامہ انجام دو کہ تمہارے علم و فضل سے قوم، ملک اور مذہب و ملت کو فائدہ پہنچے 



 فقط 
 تمہارا دوست 
ا - ب -ج 

کتاب انسان کی بہترین دوست ہے۔



کتاب انسان کی بہترین دوست ہے 


یہ ایک آزمودہ مقولہ ہے جس کی صداقت سے انکار ممکن نہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی انسان کو کتابوں سے سابقہ پڑتا ہے اور یہی کتابیں ہمیں زندگی کے نشیب و فراز، طرز، بودوباش، رہن سہن کے آدابِ زندگی، بلند پایہ مصنفین کے خیالات اور حکیمانہ باتیں ہم تک پہنچاتی ہیں۔ کتابیں تا دمِ حیات زندگی کی راہوں میں ہماری بہترین رفیق، معلم اور رہنما ثابت ہوتی ہیں اور ہمیں منزلِ مقصود تک پہنچنے میں مدد دیتی ہیں۔ 

کتب بینی کے فوائد اتنے کثیر ہیں کہ ہم ان کا شمار انگلیوں پر نہیں کرسکتے۔ کتابیں ہماری رفیق تنہائی ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں بزرگوں کے تجربات و مشاہدات اور مسائلِ حیات پر ان افکار کا جو ذخیرہ ملتا ہے ان سے مستفید ہوکر ہم بہترین زندگی گزار سکتے ہیں۔ 

مطالعہ کتب سے نہ صرف، ہماری ذہنی نشونما ہوتی ہے بلکہ پریشانی کے عالم میں یہ ہماری دلچسپی کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ ایک اچھی کتاب بہترین غذا بھی ہوتی ہے۔ کتابوں میں جو علوم کا خزانہ موجود ہوتا ہے وہ لازوال ہے۔ گردشِ روز گار پر اس کا کوئی اثرنہیں ہوتا یہ اپنے طلب گاروں اور شیدائیوں کی تشنگی دور کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے اور زندگی کے نشیب و فراز میں بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب و ملت ہر انسان کے ساتھ رہتی ہے۔ کسی سے بے وفائی نہیں کرتی۔ دولت ِ دنیا چھن سکتی ہے مگر کتب بینی سے حاصل کیا ہوا علم چرایا نہیں جاسکتا۔ 

کتب بینی سے انسان کے اخلاق و کردار پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے۔ کتابیں انسانوں کو برائی کی ترغیب بھی دے سکتی ہیں۔ اس لئے مطالعہ کتب کےلئے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ کتابیں چنتے وقت احتیاط کرنی چاہئے کہ ان کا موضوع تعمیری رحجانات کا حامل ہو۔ منحرف اخلاق اور فحش قسم کی کتابیں ہماری بدترین دشمن تو بن سکتی ہیں دوست نہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کتابیں بہترین دوست ہوتی ہیں تو ہماری مراد ان کتابوں سے ہے جس سے ہمارے کرار کی تعمیر میں مدد ملے۔ ہماری قومی اور ملی زندگی میں صحت مند رحجانات کو فروغ حاصل ہو۔ ہماری فلاح و بہبود اور ترقی و عروج کی راہیں ہموار ہوں۔ دل میں وطن اور اہلِ وطن کی محبت کا جذبہ ابھرے اور عالمگیرانسانیت، اخوت اور بھائی چارگی کا احساس پیدا ہو، عظمت آدم کی سربلندی حاصل ہو۔ 

اگر مطالعہ کتب سے یہ مقاصد حاصل ہوتے ہیں تو یقیناً: 
کتاب انسان کی بہترین دوست ہے

Friday, 1 February 2013

اردو اور علاقائی زبانیں


اردو اور علاقائی زبانی


سوال۱ پاکستان میں کون کون سی علاقائی زبانیں بولی جاتی ہےں؟ 

جواب: پاکستان میں جو علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں ان میں سندھی، پنجابی، پشتو ، بلوچی، کشمیری اور سرائیکی زبانیں زیادہ مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ ہندکو، براہوی، گجراتی اور بعض دوسری علاقائی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ 



سوال۲ علاقائی زبانوں کی موجودگی میں قومی زبان کو کیا اہمیت حاصل ہے؟ 

جواب: قومی زبان اپنی وسعت کے لئے ان علاقائی زبانوں سے الفاظ محاورے اور ضرب الامثال حاصل کرتی ہے۔ علاقائی زبانوں کے افکار بھی اردو ادب میں منتقل ہوتے رہتے ہیں اور پھر بین النصوبائی رابطے کے لئے قومی زبان کی کام آتی ہے۔ 



سوال۳ علاقائی زبانیں قومی زبان کی اور قومی زبان علاقائی زبان کی کس طرح مدد کرتی ہےں؟ 

جواب: علاقائی زبانوں کے افکاروالفاظ قومی زبان کے دامن کو وسعت دیتے ہیں اور قومی زبان کے الفاظ و خیالات علاقائی زبانوں میں جگہ پاکر نہ صرف انکو وسیع کرتے ہیں بلکہ علاقے کے افراد کو قومی زبان سے قریب لاتے ہیں۔ اسی لئے علاقائی زبانوں کی ترقی قومی زبان کی ترقی اور قومی زبان کی توانائی علاقائی زبان کی توانائی ہے۔ 



سوال۴ مخصوص رہن سہن کا زبان پر کیا اثر پڑتا ہے؟ 

جواب: ہر علاقے میں معاشرتی رہن سہن کے اپنے رنگ ڈھنگ ہوتے ہیں۔ ان کی زبانوں میں بھی ان کی معاشرت اور رہن سہن کا انداز جھلکتا ہے۔ کتنے ہی الفاظ اور محاورے وغیرہ بھی مخصوص رہن سہن کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔پھر یہ الفاظ دوسری زبانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک مخصوص معاشرت کا اثر دوسری معاشرت پر پڑتا ہے۔ اگر الفاظ کے تبادلے کا یہ سلسلہ جاری نہ رہے تو زبان کمزور اور مردہ ہوجائے اور مخصوص رہن سہن کا زبان پر مثبت اثر زبان کی تازگی قائم رکھنے میں معاون ہوتا ہے۔ 



سوال۵ اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں اس مضمون سے کیا معلومات حاصل ہوتی ہیں؟ 

جواب: اس مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ اردو کی ابتداءبھی اقوام کے باہمی میل و ملاپ اور ان کی زبانوں کے ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے سے ہوئی ہے۔ اسی لئے یہ باہمی یگانگت کا ذریعہ ہے۔

سومناتھ کی فتح سوال/ جواب

سومناتھ کی فتح  



سوال۱ حسن میمندی کون تھا اور اس نے محمود غزنوی کی خدمت میں کیا عرض کیا؟ 



جواب: حسن میمندی کا شمار محمود غزنوی کے ذہین اور وفادارارکانِ دولت میں ہوتا تھا اور یہ ایک مخبر تھا۔ ایک دن محمود غزنوی نے ارکانِ دولت کو جمع کیا اور ان سے کسی ایسی مملکت کے بارے میں پوچھا جس کو فتح کرکے خزانے کو زروجواہر سے بھردیا جائے تو سب نے سومناتھ کا نام لیا۔ حسن میمندی نے اس جگہ کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے جو کچھ عرض کیا اس کا خلاصہ ہے کہ 

قبلہ عالم! جس جگہ سومناتھ دیوتا ہے اس مندر میں جواہرات اتنی بڑی مقدار میں موجود ہے کہ مندر کو منور رکھنے کے لئے صرف ان جواہرات کی روشنی ہی کافی ہے۔ غرض وہاں کی ہرشے زروجواہر کا شاہکار ہے۔ وہاں بطورپجاری تقریباً دوہزار برہمن موجود ہیں۔ علاوہ اس کے لونڈیاں اور گوئیے بھی وہاں کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان کو تمام سہولتیں مندر سے مہیا کی گئی ہیں۔ 



سوال۲ ملتان سے گجرات تک کا سفر کیسا تھا اور محمود غزنوی نے اس کے لئے کیا تیاری کی؟ 



جواب: ملتان سے گجرات تک کا سفر بڑا دشوار تھا۔ محمود غزنوی کو معلوم تھا کہ راستے میں 

ایسے ریگستان اور چٹیل میدان ہیں کہ جہاں کوسوں تک پانی اور گھاس کا نام و نشان نہیں ملتا۔ اس لئے اس نے حکم دیا کہ ہر شخص کئی کئی دن کا کھانا پانی اپنے ساتھ لے لے۔ اور سرکارِ شاہی سے بھی دوہزار اونٹ رسد کے دانے اور گھاس پاس سے لدوا کرلیے گئے۔ 

سوال۳ محمود غزنوی نے تارا گڑھ کے قلعے پر حملہ کیوں نہیں کیا؟


جواب: محمود غزنوی نے تارا گڑھ کے قلعے پر حملہ وقت کی کمی کی وجہ سے موقوف کیا کیونکہ اس کے محاصرے میں کئی دن صرف ہوجاتے اور سومناتھ پہنچنے میں دیر ہوجاتی جس کا فتح ان کا حقیقی مقصد تھا۔ 


سوال۴ محمود غزنوی کے لشکر کو دیکھ کر سومناتھ کے پجاریوں نے کیا کہا؟ 


جواب: محمود غزنوی کے لشکر کو دیکھ کر سومناتھ کے مندر کے پجاریوں نے کہا 

’اے مسلمانو! تم اپنی فوج اور لشکر کے گھمنڈ پر ہمیں لوٹنے آئے ہو تمہیں یہ خبر نہیں کہ دھرم پرماتما ہمارا اس واسطے تمہیں یہاں لایا ہے کہ جو جو مندر اور شوالے تم نے ہندوستان میں توڑے ہیں ان سب کی سزا یہاں دے گا۔“ 


سوال ۵ پہلے دن کے معرکے میں جو کچھ ہوا تحریر کریں۔



جواب: پہلے دن کے معرکے میں محمود غزنوی پوری جنگی تیاریوں کے ساتھ میدان جنگ میں داخل ہوا۔ مسلمانوں کے جذبات میں ایک تلاطم برپا تھا۔ مسلمانوں کے اسی جوش و جذبے کے ساتھ جنگ کی ابتداءکی اور ایسے تیر برسائے کہ ہندووں کو بھاگتے ہی بنی۔ تمام ہندو مندر کے اندر جاکر چھپ گئے مسلمانوں نے فصیل تک رسائی حاصل کی اور بآواز بلند ”اللہ اکبر“ کا نعرہ بلند کیا۔راجپوتوں کو بھی جیسے جوش آگیا۔ وہ بھی میدان میں آکر مسلمانوں سے دست بستہ ہوگئے۔ بڑا زوردار معرکہ ہوا لیکن کسی بھی فریق کی شکست کے کڑوے گھونٹ سے آشنائی نہ ہوسکی اوربالآخر دونوں فریق رات ہوتے ہی اپنے اپنے مقام پر پہنچ گئے 


سوال۶ محمود غزنوی کے لشکری پہلے دن کے معرکے کے بعدکیا سوچ رہے تھے؟ 



جواب: اہلِ لشکر افتاں و خیزان حالت ہی میں یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ کہاں تو وہ جنت جیسی حسین سرزمین پر سکون سے رہ رہے تھے اور کہاں اس ریگستان اور بیابان میں مفلوک حالی کی حالت میں بے دست و پا اپنے گھروں سے ہزاروں میل کی مسافت پر پڑے ہیں جہاں اللہ کے سوا کوئی ان کا ہمدرد و غمگسار موجود نہیں۔ پس اگر اللہ کو منظور ہوا تو اسی صورت میں ہم گھربار کو واپس لوٹ سکتے ہیں۔ 




سوال۷ جب محمود غزنوی سومناتءکا بت توڑنے لگا تو پجاریوں نے اس سے کیا کہا؟ 




جواب: جب محمود غزنوی سومناتھ کے بت کو جو کہ ہند�¶ں کے لئے ان کا عظیم ترین دیوتا تھا توڑنے لگا تو پجاری اس کے قدموں میں گرگئے اور کہنے لگے کہ اس بت کو نہ توڑو اس کے بدلے میں جتنی چاہے دولت لے سکتے ہو۔ 




سوال۸ محمود غزنوی نے پجاریوں کو کیا جواب دیا؟ 




جواب: اسلام کے اس قابل فخر فرزند کو پجاریوں نے دولت کا اتنا بڑا لالچ دیا لیکن ان کی تمام آہ وزاری صدا بصحرا ثابت ہوئی اور محمود نے ان کی کوئی پیش کش قبول نہیں کی اور کہا کہ 

میرے نزدیک بت فروش نام پانے سے بت شکن ہونا بہتر ہے۔ 




سوال۹ محمود غزنوی نے اپنے لشکر کے جانبازوں سے مخاطب ہوکر کیا کہا؟ 



جواب: مسلمان اپنی ناگفتہ بہ حالت سے خاصے پریشان نظر آتے تھے ایسی حالت میں محمود غزنوی نے مسلمان افواج سے خطاب کرکے انہیں کہا کہ 

دشمن نے ہمیں چاروں اطراف سے گھیر رکھا ہے ہم اپنے وطن عزیز سے ہزاروں میل کی مسافت پرہیں۔ سوائے اللہ کے ہمارا کوئی مدد کرنے والا نہیں ہے۔ ہمیں اپنا حوصلہ بلند رکھنا چاہئے تاکہ ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔ اگر ہم جیت گئے تو غازی کہلائیں گے اور اگر مرگئے تو شہید کہلائے جانے کے مستحق ہونگے اور یہی ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔ 



سوال۰۱ محمود غزنوی کے ایمان مستحکم کا اسے کیا صلہ ملا؟ 



جواب: محمود غزنوی نے پجاریوں کی پیش کش کو ٹھکرا کر گویا دنیاوی زندگی کے پرتعیش لمحات سے منہ موڑ لیا اس کا صلہ اسے دنیا ہی میں مل گیا وہ اس طرح سے کہ جب محمود غزنوی نےبت توڑا تو اس میں سے بے پناہ دولت نکلی گویا دولت ہفت قلیم حاصل ہوگئی اور یہ دولت اس دولت سے کہیں زیادہ تھی جو پجاری اسے دینے پر رضامند تھے

علم بڑی دولت ہے مضمون


مضمون
  علم بڑی دولت ہے۔        

  
  علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کی چوری کا کوئی خوف نہیں ہوتا اور استعمال سے کم بھی نہیں ہوتا۔ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: 

مہد سے لہد تک کی علم کی تلاش مےں لگے رہو۔ 

ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: 

علم حاصل کرو خواہ اس کے لئے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ 

حقیقتاً علم ایک ایسی قوت ہے جو دنیا کی تمام تر قوتوں سے افضل ہے اور جس کے زوال کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قدرت کے سربستہ رازوں کا انکشاف علم ہی کی بدولت ہوا۔ علم کی وجہ سے دنیا کی تمام وسعتیں آج کے انسان کے سامنے سمٹ گئیں ہیں۔ دوریاں قربتوں میں بدل گئی ہیں، انسان ہوا پر قابو پاچکا ہے۔ فضا میں پرواز کرسکتا ہے۔ آج کا انسان خلاءکی وسعتوں پر حاوی ہے، چاند پر اپنی فتح کا جھنڈا گاڑھ چکا ہے، علم ہی کی بدولت وہ مظاہرِ قدرت جنہیں وہ پوجتا تھا۔ آج اس کی خاکِ راہ ہیں، علم ہی کا کرشمہ ہے کہ جس پر عمل کرکے آج ہم گھر بیٹھے دیگر ممالک کے حالات سنتے اور دیکھتے ہیں اور مزید معلومات حاصل کررہے ہیں۔ 

یہ علم کا فیض ہے کہ انسان کا نام مرنے کے بعد بھی روشن رہتا ہے۔ ہمارے اور دیگر اقوام کے عظیم قائدین نے علم کے ذریعے ہی قوم کی سچی اور پرخلوص خدمت کی ہے اور آج بھی ان کے نام زندہ و جاوید ہے۔ بزرگانِ دین بھی علم کی شمع سے لوگوں کو سیدھی ار سچی راہ دکھاتے رہے۔ علم کی بدولت ایجادات اور انکشافات کا ایک لامتناہی سلسلہ وجود میں آیا ہے جس کا دوسرا کنارہ نظر سے دور اور بعید از قیاس ہے۔ 

دنیا کی تمام تر ترقی علم پر منحصر ہے۔ علم ہی دراصل ایک انسان کو انسانی صلاحیتوں سے نوازتا ہے۔ جس کی بدولت انسان نیکی اور بدی میں تمیز کرسکتا ہے۔ علم ہی وہ ذریعہ ہے جس کی بدولت انسان دوسرے انسانوں پر سبقت لے جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب انسان بجلی کی گرج سے ڈرتا تھا اور آج وہی انسان اس پر قابو پاچکا ہے۔ اسے اپنے قبضے میں کر چکا ہے۔ بجلی کو کئی اہم کاموں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ علم کی بدولت انسان نے اطپنے لئے تفریح طبع کی سہولتیں بھی پیدا کرلیں ہیں۔ علم ایسا نور ہے جس سے جہالت اور گمراہی کی تاریکیاں دورہوجاتی ہیں۔ علم کی بدولت انسان کی چشمِ بصیرت روشن ہوجاتی ہے جس کی بدولت اس میں نیکی و بدی اور حق باطل کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ علم ایسا بیش بہا جوہر۔ علم سے انسان کے اطوار شائستہ اور اخلاق پاکیزہ بن جاتے ہیں۔ وہ دل و دماغ کو جہالت کے گہرے اندھیروں اور گہرائیوں سے نکال کر اس مقام تک پہنچا دیتا ہے۔ جہاں حسد و بغض، دشمنی اور لالچ کا گزر نہیں ہوتا۔ بلکہ انسان کو نیکی، خلوص، فیاضی اور دوستی جیسی عظیم صفات عطا کرتا ہے۔ 

دنیا کی یہ تمام تر ترقی علم ہی کی بدولت ہے علم کی بدولت ہی آج کا انسان خلاءکو مسخر کررہا ہے۔ علم انسان کو جرات، ہمت، استقلال، تدبر و بردباری اور ہر قسم کی عقدہ کشائی کی صلاحیت بخشتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے دنیا کا چپہ چپہ چھان مارا، قطبِ شمالی سے لیکر قطب جنوبی تک زمین کو رندتا چلا گیا۔ 

علم ہی انسان کو باعزت، باوقار اور عظیم تر بناتا ہے اسی کی بدولت انسان اپنی اور دوسروں کی خدمت کرتا ہے۔ اب تک جتنے بھی بڑے آدمی گزرے ہیں وہ علم ہی کی بدولت ہی کمالِ عروج پر پہنچے، بڑے بڑے مراتب حاصل کئے۔ غرض سقراط ہو یا بقراط، بوعلی سینا ہوں یا فردوسی آج بھی ان کا نام عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ حضرات علم کے سمندر کے مانند تھے اور ایسی دولت کے مالک تھے جسے ہر کوئی حاصل کرنا چاہتا ہے تھا لیکن محنت اور کاوش کے بغیر اس کا حصول ناممکن تھا اور آج بھی ناممکن ہے اس لئے کہ: 
علم بڑی دولت ہے۔



قومی اتحاد مضمون


مضمون  قومی اتحاد            

اتحاد میں بڑی طاقت اور اخوت ہے۔ کسی ملک کی بقا کا انحصار قومی یک جہتی اور اتفاق پر ہے۔ کوئی جماعت، کوئی ملک، کوئی قوم اقوام عالم کی نگاہ میں عزت و آبرو اور وقار و احترام کا مقام نہیں پاسکتی جب تک کہ اس کے افراد میں یک جہتی اور ہم آہنگی نہ ہو۔ قومی اتحاد کے بغیر ترقی اور خوشحالی کا تصور بھی ایک خام خیال ہے۔ انفرادی اور اجتماعی اقبال ایک خواب ہے۔

جس طرح موج کی قوت کا زور، جوش، تلاطم اور طنطنہ دریا کے اندر ہے، دریا کے باہر موج کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اسی طرح فرد کی اپنی کوئی قوت نہیں ہوتی، فرد تنہا کوئی حیثیت نہیں رکھتا لیکن جب وہ ایک ملت میں گم ہوجاتا ہے تو بڑی قوت بن جاتا ہے۔ اقبال نے قومی اتحاد اور ملی زندگی کی اہمیت کو ایک تعمیر اور بالخصوص اسلامی معاشری کے قیام کے لئے بہت سی جگہوں پر اجاگر کیا ہے۔
ایک جگہ کہتے ہیں

ملت سے اپنا ربط استوار رک
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ 

اقبال مسلمانوں کی اجتماعی روح کی تصویر کو اپنے ذہن میں رکھ کر ایک متحد اور ہم آہنگ زندگی بسر کرنے کی پرزور اپیل کرتے ہیںاور جہاں کہیں مسلمانوں کے اتحاد کے آنسو پارہ پارہ ہوتے دیکھتے ہیں تو خون کے آنسو روتے ہیں۔ مسلمانوں کے انتشار کو دیکھتے ہیں اور دردِ 
قومی سے چیخ اٹھتے ہیںاور ان کی زبان کی نوک پر اپنے پرسوز شعر آجاتے ہیں 

ایک ہی اس قوم کا ایمان بھی ایک حرم پاک بھی 
اللہ بھے قرآن بھی ایک، ایک ہی سب کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم 
دین بھی کچھ بڑی بات تھی، ہوتے جو مسلمان بھی ایک 

ملت اسلامیہ کی رہنمائی کے لئے قرآن حکیم کی شکل میں ایک مکمل ضابطہ حیات موجود ہے۔ جو اتحاد اور ربطِ باہمی کا درس دیتا ہے اور ایک واضح مقصدِ حیات پیش کرتا ہے۔ ایک منزل کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس اس منزل تک پہنچنے کے لئے افراد کو قدم سے قدم ملا کر دوش بدوش گامزن ہونا ضروری ہے اگر وہ متحد و متفق ہوکر آگے بڑھیں تو کوئی بھی مخالف قوت ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ وہ ایک ایسا طوفان بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس سے دریاوں کے دل بھی دہل جائیں گے اور جس کے متحد عزم و ارادہ کے آگے پربت رائی ہوکر رہ جائے۔
بقول اقبال

   ہیں ضبطِ باہمی سے قائم نظارے سارے        
 یہ نکتہ ہے نمایاں تاروں کی طرح سے

علاقے میں نیا اسکول کھولنے کے لئے اخبار کے مدیر کے نام درخواست

                                                                                علاقے میں نیا اسکول کھولنے کے لئے اخبار کے مدیر کے نام درخواست

                                                                                                                                                     کمرہ امتحان
                                                                                                                                                           کراچی
                                                                                                                                              ۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
                                                                                  مدیر محترم 
                                                                                           وزنامہ جنگ کراچی 
                                                                                                                                                 !اسلام وعلیکم 
                میں آپ کا روزنامہ باقاعدگی کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے اپنے اخبارکا ایک صفحہ
            عوامی شکوے ، شکایات اور مسائل کی اشاعت کے لئے وقف کردیا ہے تاکہ لوگوں کے مسائل موثر انداز میں متعلقہ حکام تک پہنچ سکیں۔ 

         لہذا میں آپ کے اخبار کی وساطت سے متعلقہ حکام کے علم مےں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ ہمارا علاقہ شہر سے کافی دور واقع ہے۔ جب سے 
      حکومت نے اس علاقے کو گیس، بجلی اور پانی جیسی بنیادی ضروریاتِ زندگی فراہم کی ہیں، اس کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ یہاں 
          کوئی ہائی اسکول نہیں ہے۔ اسلئے طلباءو طالبات کو دور دراز کے علاقوں میں اپنی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جانا پڑتاہے۔
         جس کی وجہ سے نہ صرف ان کو ٹرانسپورٹ کی پریشانی اٹھانا پڑتی ہے بلکہ آنے جانے میں ان کا قیمتی وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور تھکن
           کی وجہ سے طلباءپوری طرح سے اپنی تعلیم پر بھی توجہ نہیں دے پاتے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس علاقے میں جلد از جلد 
            اسکول کھولا جائے تاکہ اس علاقے کے بچے تمام پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کرکے یکسوئی کے ساتھ اپنی تعلیم پر توجہ دے سکیں۔ 

          امیدکرتا ہوں کہ آپ میری یہ عرضداشت حکامِ بالا تک پہنچانے کا ذریعہ بنےں گے اور متعلقہ حکام معاملے کی نزاکت کو محسوس کریں گے 
                                                      اور احساسِ ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے اس مسئلے کے جلد حل کے لئے موثر اقدامات کریں گے 


فقط
آپکی عنایتوں کا طالب
ا - ب -ج