Powered by Blogger.

Saturday, 2 February 2013

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی


عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی 


یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نا ناری ہے حکیم الامت شعرِ مشرق علامہ اقبال نے اس شعر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ عمل ہی ایک ایسی واحد شے ہے جس سے انسان اپنی زندگی کو کامیاب ، خوشگوار اور پرآشوب بناسکتا ہے۔ 

اللہ تعالی نے انسان کو زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے۔ اسی لئے اس ذاتِ پاک نے انسان کو بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے۔ عقل دی تاکہ اپنے لئے صحیح راستہ کا انتخاب کرے اور سعی و کوشش کی خوبی سے نوازا تاکہ اس کے منتخب کردہ راستے کے حصول کے لئے جدوجہدِ عمل سے کام لے، ہمت و استقلال، بردباری اور عرفان دیا تاکہ مقاصد کے حصول میں پیش آنے والی پریشانیوں کا مقابلہ کرسکے۔ اللہ تبارک و تعالی نے انسان کی حدود متعین کی ہوئی ہیں۔ جن کے اندر رہ کر انسان بہت کچھ کرسکتا ہے اور جہاں تک خدا چاہتا ہے اس سے آگے کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ مفلسی اور امیری بھی اللہ نے انسانوں کے اختیار میں کی ہے جس نے عمل کیا کوشش کی ترقی کی راہ اختیار کی اسی ترقی ملی ہے۔ جس نے عمل کیا، کوشش کی ترقی کی راہ اختیار کی 
اسے ترقی ملی ہے۔ 

 اللہ تعالی خود فرماتا ہے

انسان کے لئے کچھ نہیں سوائے اس کے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے 

کامیاب لوگوں کی ترقی کا زینہ بے اندازہ جدوجہد، شب و روز کی محنت اور عملِ پیہم سے مل کر بنا ہے۔ کم ہمتی اور بے عملی انسان کی ناکامی کا سبب بنتی ہے۔ وہ تدبیر کو چھوڑ کر تقدیر کے سرہانے بیٹھ کر روتے ہیں اور نتیجاً آنسو اور آہیں ان کا مقدر بن جاتے ہیں۔ قسمت بنی بنائی نہیں ہوتی بلکہ قسمت انسان خود بناتا ہے اگر اس کے مقاصد نیک ہوں تو باتدبیر عمل، صحیح سمت، محنت، لگن اور دیانت داری کے ذریعے وہ اپنی منزل ِ مقصود تک ضرور پہنچ جائے گا اور اس میں خدا اس کا حامی و ناصر ہوگا۔ اگر انسان کوتاہیوں اور غلط منصوبہ بندی سے کام لے گا تو اس کے لئے اپنے مقاصد کا حصول بہت زیادہ مشکل ہوجائے گا۔ 

صاحبِ عقل و فہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کامیابی کا راز عمل میں پنہاں ہے۔ کم ہمت لوگ جو کاہلی، تلون مزاجی اور بزدلی کی وجہ سے ناکام رہ جاتے ہیں۔ تقدیر کو مورودِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ لیکن یہ سراسر غلط ہے اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ انسان کوشش ترک کردے اور تقدیر پر سب کچھ چھوڑ دے۔ صاحبِ علم و فراست یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر آنے والے لمحے سے وابستہ داستانِ ”لوح ِ محفوظ“ میں قلمبند ہے جو کچھ ہم کریں گے وہ اس مےں لکھا ہے کم عقل حضرات اس سے یہ اندازہ بھی لگا لیتے ہیں کہ خواہ ہم کچھ بھی کرلیں وہی کچھ ہوگا جو تقدیر میں لکھا ہے۔ یہ سوچنا سراسر غلط ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو کسی کام کے کرنے کے لئے پابند کردیا گیا ہے۔ 

ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہر بڑا آدمی اپنے عزم و استقلال اور ہمت و جوانمردی سے تدبیرو عمل کے ذریعے اپنے لئے راہ ہموار کرتا ہے۔ وہ عزت، شہرت، شان و شوکت غرض سب کچھ جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم سے حاصل کرتا ہے۔ اسے اپنی زندگی میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ ہمت و استقلال پر قائم رہتا ہے اور اپنے ارادوں کو چٹان کی طرح مضبوط رکھتا ہے۔ ہر کامیاب انسان اپنے مقصد سے غافل نہیں ہوتا۔ فضول گفتار میں وقت جیسی اہم چےز کو برباد نہیں کرتا۔ تمام اہلِ شہرت و عزت کی کامیابی کا راز عمل ہے۔ ان کی زدنگی سے ہمیں دعوتِ عمل ملتی ہے۔ 

پس انسان کی زندگی اس کے اپنے اعمال و کردار سے بنتی ہے 

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا

18 comments:

  1. really........great....!!!!

    ReplyDelete
  2. Oh! Very great essay I wrote him for as assignment once again thanks

    ReplyDelete
  3. برائے مہربانی اس سائیڈ پر مزید مضمون شائع کریں یہ بہت عمدہ کاوش ہے

    ReplyDelete
    Replies
    1. *عمل سے زندگی بنتی ھے.....!!*


      ایک شہزادہ اپنے اُستاد مُحترم سے سبق پڑھ رہا تھا
      اُستاد مُحترم نے اُسے دو جُملے پڑھائے
      1 ــ جُھوٹ مت بُولو
      2 ــ غُصّہ نہ کرو
      کُچھ دہر کے وقفے کے بعد شہزادے کو سبق سُنانے کو کہا گیا
      تو شہزادے نے جواب دیا کہ ابھی سبق یاد نہیں ھوسکا
      دُوسرے دن پھر اُستاد مُحترم نے سبق سنانے کو کہا
      شہزادے نے پھر عرض کیا کہ ابھی سبق یاد نہیں ھوسکا
      تیسرے دن چُھٹی تھی ــــ اُستاد نے کہا کہ
      کل چُھٹی ھے ـ لہذا کل لازمی سبق یاد کر لینا
      بعد میں ــ میں کوئی بہانہ نہیں سُنوں گا !!!!
      چُھٹی کے بعد اگلے دن بھی شاگرد خاص سبق سُنانے میں ناکام رہا
      اُستاد مُحترم یہ خیال کیئے بغیر کہ
      شاگرد ایک شہزادہ ھے ـ غُصّے سے چلّا اُٹھے اُور طیش میں آکر
      ایک تھپڑ رسید کردیا کہ یہ بھی کوئی بات ھے کہ اتنے دنُوں سے
      دو جُملے یاد نہیں ھوکر دے رہے !!!
      تھپڑ کھاکر ایک دفعہ تو شہزادہ گم سُم ھوگیا
      پھر بُولا کہ اُستاد مُحترم سبق یاد ھوگیا
      اُستاد کو بہت تعجب ھوا کہ پہلے تو سبق یاد نہیں ھورہا تھا
      اُور تھپڑ کھاتے ہی فوری سبق یاد ھوگیا
      شہزادہ عرض کرنے لگا کہ
      اُستاد مُحترم آپ نے مُجھے دو باتیں پڑھائی تھیں
      1 ـ جُھوٹ نہ بُولو ــ 2 ــ غُصّہ نہ کرو !!!!
      جُھوٹ بُولنے سے تو میں نے اُسی دن توبہ کرلی تھی
      لیکـن غُصّہ نہ کرو ــ یہ مُشکل کام تھا
      بہت کوشش کرتا تھا کہ غُصّہ نہ آئے
      لیکـن غُصّہ آجاتا تھا ـــ اب جب تک میں غُصّے پر قابُو پانا نہیں
      سیکھ جاتا تو کیسے کہہ دیتا کہ سبق یاد ھوگیا ؟؟؟
      آج جب آپ نے تھپڑ مارا اُور یہ تھپڑ بھی میری زندگی کا پہلا تھپڑ ھے
      ُاسی وقت میں نے اپنے دل و دماغ میں غُور کیا کہ
      غُصّہ آیا کہ نہیں ؟؟؟
      غُور کرنے پر مُجھے محسُوس ھوا کہ غُصّہ نہیں آیا
      آج میں آپ کا بتایا ھوا دُوسرا سبق کہ غُصّہ نہ کرو
      بلکل سیکھ لیا ھے ، آج اللہ کے فضل سے مُجھے
      مُکمل سبق یاد ھوگیا ھـے !!!!

      *درس حیات۔۔۔۔!!*
      ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
      اے میرے عزیز دوستوں ــ ہمیں بھی چاہیئے کہ
      جو قُول زریں ہم لکھتے ، پڑھتے اُور سُنتے رہتے ہیں
      ان پر عمل کریں کیونکہ عمل سے انسان کی اصلاح ھوتی ہے اور
      عمل سے ہی زندگی بنتی ہے....!!

      Delete
  4. زندگی جس کا بڑا نام سنا
    Is topic pr mujhy essay mil sakta hai. Most Urgent need hai.

    ReplyDelete
  5. very excellent essay I Wrote it for assesment once again thankyou so much 😘😘😘

    ReplyDelete
  6. ماشاءاللہ سبحان اللہ لا حو ل ولا قو تہ الا با اللہ

    ReplyDelete
  7. مجھے دوست کے نام خدمت خلق کی اہمیت پر خط درکار ہے۔ کسی بھائی کے پاس ہو تو نظر کرم فرمائے۔

    ReplyDelete
  8. Brilliant essay I just wrote it in my copy

    ReplyDelete
  9. I will use it as my speech on عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

    ReplyDelete
  10. Please mjhy amal se zindagi banti ha jannat bhi jahanum bhi pe koi poetry mil sakti hai for my speech

    ReplyDelete
  11. یہ کس کتاب میں ہے اور کونسی صفحہ پر ہے۔

    ReplyDelete